محترم مولانا فضل الرحمن کے نام کھلا خط


السلام علیکم

مولانا صاحب آپ کو موجودہ سیاسی تناظر پر خط لکھنے سے پہلے یہ عرض کرتا چلوں کہ میں مسلم لیگ (ن) کا جمہوری کارکن ہونے کے باوجود آپ کے سیاسی کردار اور دوراندیشی کا احترام کرتا ہوں اور آپ نے ماضی کی سیاست میں ہمیشہ برداشت اور معاملہ فہمی کو ترجیج دی ہے اور جمہوری روایات اور آئین کے ساتھ چلنے کو اہمیت دی ہے۔ مولانا صاحب سب بڑا کردار آپ کا گذشتہ دھرنے کے دوران سامنے آیا جب آپ نے جمہوری پارلیمانی قوتوں کے ساتھ مل کر غیر جمہوری قوتوں کو ناکام کیا اور جمہوریت کی گاڑی کو آگے لےجانے میں کلیدی کردار ادا کیا جس پر پاکستان کے ہر سیاسی کارکن اور اہل دانش نے آپ کی تعریف کی ہے۔

جناب مولانا صاحب الیکشن سے ایک روز قبل ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو آپ کی جماعت کا ماضی میں حصہ بھی رہا ہے اور آپ کے ساتھ اس کا اچھا تعلق بھی رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ مولانا کی سب سے بڑی سیاسی خوبی کیا ہے تو اس نے ایک دفعہ نہیں دو سے تین مرتبہ یہ کہا کہ مولانا کبھی بھی جذبات میں اور جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرتے لیکن جناب میں الیکشن کی رات ہی بہت حیران ہوا جب آپ نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے 77ء کی طرح تحریک چلانے کے ارادے کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرس بھی بلانے کو ترجیح دی ہے اور سٹرکوں پر آنے اور احتجاج کا راستہ چنا ہے۔ جناب یہ بات سن کر مجھے شدید مایوسی ہوئی اس لئے کہ میں آپ سے کبھی کسی ایسے فیصلے کی توقع نہیں رکھتا جس سے اس ملک کو انتشار کا سامنا ہو سکتا ہے۔

جناب آپ نے 77ء کی تحریک کی بات کی ہے اس کی تاریخ کو ہم نے پڑھا ہے اور آپ ان حالات کے چشم دید گواہ بھی ہیں کہ بھٹو صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کروائی اور اس بنیاد پر اقتدار حاصل کیا ہے۔ شروع میں تحریک انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے لئے (پی این اے) کے پلیٹ فارم سے احتجاج شروع کیا گیا جو بعدمیں نظام مصطفی کی تحریک میں بدل گیا اور اس میں مذہبی شدت پسند شامل ہو گئے اور جب ذوالفقار علی بھٹو مذاکرات میں دوبارہ انتخابات کے لئے راضی ہو گئے تھے اور آخری دن جب آپ کے والد محترم مفتی محمود اور ان کے ساتھ نوابزدہ نصراللہ خان مذاکرات کی کامیابی کی پریس کانفرس کرنے جا رہے تھے تو تحریک کے ایک رہنما اصغر خان نے ان سے وہ پریس ریلز لے کر پھاڑ دی اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کو مسترد کر دیا ہے اور اس کے چند گھنٹوں بعد مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے۔

اس بھیانک اور انسانیت سوز مارشل لاء کا ہم نے دس سال سامنا کیا جس نے دنیا کے سامنے پاکستان کے مثبت چہرے کو داغدار کر کے رکھ دیا۔ اسی 77ء کی تحریک کے ثمر میں ملنے والے مارشل لاء نے ہم پر افغان جنگ کو مسلط کیا جس کی وجہ سے ہمیں دہشتگردی اور انتہا پسندی ورثے میں ملی اور چالیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کا بوجھ ہمیں چار دہائیاں اٹھانا پڑا اور اسی آدم خور مارشل لاء نے اس ملک کے نا صرف قومی قائد ذولفقار علی بھٹو کی زندگی چھینی بلکہ سینکڑوں سیاسی کارکن ریاستی جبر کی وجہ سے جانوں کی بازی ہار گئے اور اس ملک کو لسانی تنظیموں کا تحفہ بھی اسی دوران میں ملا اور طلباء یونین جیسی جمہوریت کی بنیادی نرسری کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا جسے ریاست نے تاحال قائم رکھا ہے اور جمہوری حکومتیں بھی اس پابندی کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے میں اپاہج نظر آئی ہیں۔ اور ہم اس آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی سب برائیوں کی وجہ سے آج تک ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

مولانا آپ نے اگر آج دوبارہ اسی راہ کا انتخاب کیا اور احتجاج کی سیاست کا راستہ اختیار کیا اور کاروبار حکومت نہ چلنے دیا تو اس کا انجام بھی ایک نئے مارشل لاء کی آمد پر مکمل ہو گا۔ ماضی کھلی کتاب کی طرح ہے جس میں کی گئی غلطیوں کی تلافی حال میں کی جاسکتی ہیں۔ 70ء کے انتخابات میں ہم نے شیح مجیب الرحمن کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا تو اس کا انجام ہم نے آدھا ملک گنوا کر دیکھ لیا تھا اور اب اگر ہم نے تحفظات کے باوجود عمران خان کا مینڈیٹ تسلیم نہ کیا تو ریاست کی گمراہ سوچ جمہوریت کی جڑیں کاٹ پھینک دے گی اور عزیز ہم وطنو کی صدائیں سارے ملک میں گونجنا شروع کر دیں گی جو صرف اور صرف ہماری ناقص سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ممکن ہو سکتی ہے۔ جبکہ سیاسی فہم کا مظاہرہ کریں تو جمہوریت کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دے سکتا اور مثبت اپوزیشن دے کر حکومت کو ماضی کی طرح مقتدرہ کے سامنے جھکنے سے بچا سکتے ہیں اور خارجہ اور داخلہ پالیسی کی پالیسی کی بازیابی کے لئے بھی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔

 مناسب یہی ہے کہ ایسا مضبوط سیاسی نظام بنایا جائے کہ اب سفارت کار پنڈی جانے کا فیصلہ ترک کریں اوراسلام آباد سے ہی خارجہ پالیسی چلائی جائے۔ جناب آپ نے نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو صاحبہ کو مشورہ دیا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر صاحبزادہ یعقوب کو وزیر خارجہ نہ بنائیں اور پاور سرنڈر نہ کریں جبکہ بے نظیر صاحبہ نے پھر بھی ٹکراؤ کو نظر انداز کر کے خارجہ امور پنڈی کی ایما پر چلنے کو ہی ترجیح دی۔ جناب آپ کی جمہوریت پسند رائے کا احترام اپنی جگہ لیکن میری نظر میں محترمہ کا فیصلہ درست تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ بالادستوں سے کمزور اقتدار کی بنیاد پر اختیار حاصل نہیں جا سکتے جب اپوزیشن سڑکوں پر تلواریں لے کر کھڑی ہو۔ جناب مولانا محترمہ نے سیاسی نظام کے چلنے کو اہمیت دی اور مرحلہ وار آمریت کو کمزور کیا جس کا ایک اظہار میثاق جمہوریت کی صورت میں سامنے آیا جس کی سیاسی دانش کا اس قدر خوف تھا کہ غیر جمہوری طاقتوں نے ان کا جینا گورا نہ کیا۔

مولانا محترم!

احتجاج کی سیاست سے جو سیاسی اور آئینی رکاوٹیں سامنے آئیں گی انہیں ایک طرف رکھیں۔ اس ملک میں جو اقتصادی مسائل پیدا ہوں گے ان پر بھی نظر ہونی چاہیے عالمی دنیا کسی قسم کا معاہدہ کرنے یا انوسٹمنٹ کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرے گی چین نے سی پیک کے فنڈز سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے انتخابات سے چھ ماہ قبل سے ہی روکے ہوئے ہیں اور اب انہیں مزید خفگی سے دور رکھنا ہو گا نہیں تو بہت سی معاشی مشکلات دیکھنے کا سامنا ہو گا اور پہلے ہی ہم گرے لسٹ میں شامل ہو چکے امریکہ اور باقی سارا یورپ ہم سے ہماری غلطیوں کی وجہ سے منہ موڑ چکے ہیں۔ اب مزید مخالفتیں ہماری قوم برداشت نہیں کر سکتی اور اس کے علاوہ احتجاجی تحریک کی وجہ سے جو معصوم سیاسی کارکنوں کا خون گرے گا اور زندگیاں چھینی جائیں گی ان کا ذمہ دار کون ہو گا؟

انتخابات کے دنوں میں جو دو سو سے زیادہ گھر اجڑے ہیں جن کے گھروں میں ان کے پیاروں کی لاشیں گئی ہیں وہ سب جمہوریت کے شہید ہیں۔ تمام سیاسی قیادت کو ان کے گھر اظہار تعزیت کے لئے نہ صرف جانا چاہیے بلکہ ان کے گھروں کو چولہا جلنے کے لئے حکومت سے ان کے لواحقین کو روزگار اور مراعات لے کر دینی ہوں گی۔ اس کے بعد سیاست شروع ہونی چاہیے۔ مولانا کہنے کو گھر اجڑنا یا یتیم ہونا معمولی الفاظ ہیں لیکن یہ دنیا کا بڑا بھیانک منظر ہوتا ہے میں نے والد کا سر سے سایہ اٹھنے کی وجہ سے قدم قدم پر مشکلات کا پہاڑ دیکھا ہے اور والد کے غم کا پوچھنا ہو تو ہم سےپوچھیں اور اگر اولاد چھن جانے کا دکھ جاننا ہو تو میاں افتخار حسین سے پوچھ لیں۔ جناب، اب کوئی والد اپنی جوان اولاد کے لاشے اور کوئی بچہ اپنے والد کی لاش کو کندھا دینے کی سکت نہیں رکھتا اور وہ بھی شکست خورہ انا کی وجہ سے یہ نتائج دیکھے۔ مولانا اب ہمیں اقبال کے اس شعر سے زیادہ ساحر لدھیانوی کے شعر سے سبق سیکھنا ہو گا۔ اقبال نے کہا تھا

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

جبکہ ساحر نے آگے بڑھ کر کھیت جلانے سے روکا اور اس طرح اعتراض کیاکہ

فصل باقی ہو تو تقسیم بدل سکتی ہے

فصل کی راکھ سے کیا مانگے گا جمہور کا حق

ہم ساحر کی اس کی اس مثبت سوچ کو لے کر آگے چلنا ہو گا اور جمہوریت کو تقویت دینی ہو گی نہ کہ رخنہ ڈالنا ہو گا جس کا انجام صرف ڈکٹیٹرشپ پر ہے۔ آخر میں مولانا اے پی سی میں شریک تین رہنماؤں کے لئے راز کی بات کہوں گا۔ میرا افراسیاب خٹک سے بڑا خلوص کا رشتہ ہے اورہمیشہ ان کی میرے ساتھ شفقت رہی ہے۔ میں انہیں کہوں گا کہ اسفندیار ولی کو بتائیں کہ وہ آٹھارویں ترمیم کی حفاظت اور نفاذ کا پرچم اٹھا کر قیادت کرتے ہی اچھے لگتے ہیں جس سے ملک کے بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور آمروں کے ہمیشہ کے لئے پاؤں اکھڑ سکتے ہیں۔ اس لئے وہ اسی سفر کو جاری رکھیں نہ کہ انتخابات کا رونا رویا جائے۔

محترم مولانا صاحب، دوسری بات شہبازشریف صاحب کے لئے کہ نپولین نے کہا تھا کہ حکمران یا تو حکم کرتے ہیں یا پھر خاموش رہتے ہیں اور تیسری بات یہ آپ آفتاب شیرپاؤ کو میرا پیغام پنچا دیجیے گاکہ کل آپ کے بڑے بھائی حیات شیر پاؤ کو ولی خان لڑکا کہہ کر مذاق اڑیا کرتے تھے وہ ہی حیات شیر پاؤ حکمران بھی بنا اور ولی خان کی سیاست کو نقصان بھی پہنچا گیا اب آفتاب شیرپاؤ سے گزراش یہ ہے کہ آپ عمران خان کو کرکٹ کا کھلاڑی کہہ کر غیر سنجیدہ نہیں لے سکتے اب وہ ایک سیاسی حقیقت بن چکا ہے اور اس سے سیاسی فیصلوں کے ذریعہ ہی مقابلہ کرنا ہو گا نہ کہ نفرت کےانداز سے۔

مولانا محترم، آپ اے پی سی کے سب دوستوں پر واضح کر دیں کہ اڈیالہ جیل میں موجود نواز شریف کی عمر بھر کی سیاست کا نچوڑ ہے کہ صوبوں اور مرکز میں انتخابی جیت کے جھنڈے گاڑنا کوئی بڑی فتح نہیں ہے جب تک ستر برس سے بالادست ریاست کے پاس گروی رکھے گئے اختیار واپس نہ لئے جائیں اور وہ صرف جمہوری مکالمے اور پرامن سیاسی جدوجہد سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

آپ کا نیاز مند

سردار فواد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).