ڈیم فنڈز اکھٹے کرنا ججوں کا کام نہیں، چیف جسٹس



چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پانی کے ذخائر کی تعمیر کے لئے حکومت اگر فنڈز اکٹھے کر سکتی ہے تو کرے، حکومت چاہے تو عدالت کے قائم کردہ فنڈز کو ٹیک اوور کر لے، یہ عدالت کے ججوں کا کام نہیں فنڈز اکٹھے کریں۔

دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے مقدمے کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے کی۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے وکیل اعتزاز احسن سے پوچھا کہ کیا عدالت کا ڈیمز کے لئے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست ہے؟ اعتزاز احسن نے کہا کہ ڈیمز کے لئے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست اور اچھا ہے متنازعہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ڈیمز پر تنازعہ نہیں ہے ابھی انہی پر فوکس ہے، ڈیمز بننے تو ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کالا باغ پر جب کبھی اتفاق ہو گا وہ بھی بن جائے گا، لوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈ کی نگرانی عدالت کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیمز کا ڈیزائن کیا ہوگا، ٹھیکہ کس کو دینا ہے یہ ہمارا کام نہیں، ریاست کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، الیکشن کی وجہ سے فنڈز میں پیسے نہیں آسکے۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کو قوم کے اتفاق پر چھوڑ رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت اگر فنڈز اکٹھے کر سکتی ہے تو کرے، حکومت چاہے تو قائم فنڈز کو ٹیک اوور کر لے، عدالت کے ججز کا کام نہیں فنڈز اکٹھے کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل درگاہ کی حاضری پر مجھے کسی نے پانچ لاکھ کا چیک دے دیا، لوگ ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز دینا چاہتے ہیں، لوگ اب پانی کے ضیاع کو روکنے پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت بجلی کے بلوں پر ہوشربا ٹیکسوں کا نوٹس لینے کا عندیہ دیا اور کہا کہ بجلی کے بل میں ہوشربا ٹیکسز ہوتے ہیں اس پر بھی نوٹس لیں گے، لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں، ٹیکسوں کا کتنا بوجھ ڈالنا ہے، پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکسوں کی وصولی کا کوئی نظام بنانا پڑے گا، بجلی چوری کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ ڈیمز بنانا عدالت کا کام نہیں، عدالت حکومت کی مدد کر رہی ہے، ڈیمز کے فنڈز سے رقم کیسے جاری ہوگی، زلزلہ متاثرین کے فنڈز دوسرے منصوبوں میں استعمال ہو گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 9 سال کی بچی نے اپنے سکول کے بچوں سے 53 سو روپے اکھٹے کر کے مجھے دیے، آنے والی نسلوں کو بچانے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیمز کی تعمیر کے لئے درکار رقم ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہے، بجلی کے بلوں میں نہ جانے کون کون سے ٹیکس اور سرچاج شامل کر دیے جاتے ہیں، غریب آدمی اتنے ٹیکس کیسے دے سکتا ہے۔

اخباری مالک ضیاء شاہد نے کہا کہ انڈس واٹر معاہدے کے ذریعے ستلج، بیاس اور راوی بھارت کو دے دیے گئے تھے۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق وکیل خالدرانجھا نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی پر حکومت کو نظر ثانی کے لئے معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی معاہدہ یا ٹریٹی کرنا حکومت کا کام ہے، عدالت معاہدے پر حکومت کو ہدایت یا حکم کیسے دے سکتی ہے، حکومت کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائے، ہمیں حدود سے تجاوز کرنے کا بھی کہا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پانی کے درست استعمال نہ کرنے کا فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے، کون لوگ ہیں جنہوں نے 40 سال سے ڈیمز نہیں بننے دیے، اس وقت ڈیمز بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیمز فنڈز میں اپنا کردار دیکھ لیں گے، لوگوں کو تشویش ہے کہ ڈیمز فنڈ کا پیسہ غلط استعمال نہ ہو۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے میڈیا احتیاط سے رپورٹنگ کرے۔ سماعت غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دی۔
بشکریہ پاکستان 24 ڈاٹ پی کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).