جسٹس شوکت عزیز کی سپریم جوڈیشل کونسل میں پہلی پیشی، ریکارڈ کی درخواست مسترد


سپریم جوڈیشل کونسل کی پہلی بار کھلے کمرے میں سماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین و آرائش پر دائر کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کی صدارت میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کر رہا ہے۔ جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس بلوچستان، اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آج جوڈیشل کونسل میں میں کیا کارروائی ہونی ہے، کیا شواہد ریکارڈ ہونے ہیں؟ جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ آج جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں شواہد ریکارڈ ہونے ہیں، وکیل نے کہا کہ موکل کی طرف سے دو درخواستیں دائر کی ہیں، وکیل حامد خان نے کہا کہ ایک درخواست میں الزامات سے متعلق ریکارڈ لگایا گیا ہے، درخواست میں اعلی عدلیہ کے گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا گزشتہ سات سال کا ریکارڈ مانگا ہے، جو ججز سرکاری گھر کے ساتھ رہائشی الاؤنس لے رہے ہیں وہ ریکارڈ بھی مانگا ہے، وکیل نے کہا کہ ججز کے سرکاری گھروں پر تزئین و آرائش کے اخراجات کا ریکارڈ مانگا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو طول نہیں دینا چاہتے، جو الزامات ہیں ان کی روشنی میں جواب دیں، یہ ریکارڈ منگوانے کا کوئی مقصد نہیں ہے، کسی مخصوص جج کا بھی درخواست میں ذکر نہیں ہے، کسی جج کا ذکر ہوتا تو ریکارڈ منگواتے۔

وکیل نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی لاکھوں روپے تزئین و آرائش کرانے کا الزام ہے، دوسرے ججز کے سرکاری گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کرتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انکوائری کا دائرہ اختیار اتنا وسیع نہیں ہوتا، سرکاری گھر کے تزئین و آرائش کے اخراجات کی لمٹ کو کونسل طے کرے گی، ٹرائل شروع ہو چکا ہے شواہد کی روشنی میں فیصلہ کریں گے۔

وکیل نے کہا کہ ہماری دوسری درخواست ریفرنس کے شکایت کنندگان سے متعلق ہے، شکایت کنندگان کے خلاف فوجداری اور عدالتی مقدمات کا ریکارڈ منگوایا جائے، دیکھا جائے کہ جب یہ گھر شوکت عزیز صدیقی کو الاٹ ہوا اس وقت کیا حالت تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے شواہد ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ اس دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے روسٹرم پر کھڑے اپنے وکیل حامد خان کے کان میں بات کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان اپنے موکل سے کہیں کہ اس طرح بات نہ کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کب اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔

کم سے کم یہ تاثر ملنا چاہیے کہ میرے ساتھ برابری کا سلوک ہوا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی
ہم نے کون سا غلط اختیارات کا استعمال کیا، کسی کو اٹھا کر باہر نہیں پھینکنا چاہتے، چیف جسٹس
جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہے کارروائی کیسے چلانی ہے، آپ کی مرضی سے کارروائی نہیں چلنی، چیف جسٹس

ان سے کہیے عدالت کو مخاطب نہ کریں، چیف جسٹس کا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل سے مکالمہ
جو بات کہنی ہے اپنے وکیل کے ذریعے کریں، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا کہ ریفرنس میں براہ راست الزامات معزز جج پر لگائے گئے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے مانگے گئے ریکارڈ کا ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں،

جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے الزامات بے بنیاد ہیں، وکیل
سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کرنا جرم نہیں، وکیل
اگر الزامات پر شواہد نہیں آئے تو کونسل کی کارروائی ختم کر دیں گے، چیف جسٹس

جسٹس صدیقی کی ریکارڈ فراہمی کے لئے درخواستیں مسترد کر دی گئیں
بشکریہ پاکستان 24 ڈاٹ پی کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).