قائد انصاف، محترم چیف جسٹس کی مدلل مداحی اور ایک جائز درخواست


 اس وقت پاکستان کی اصلی تے وڈی خبر، موجودہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار ہیں۔ لڑکپن میں جب کہیں ظلم وزیادتی نظر آتی ہے تو دردِ دل رکھنے والے ذہین نوجوان یہی سوچتے ہیں کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو ان ظالموں کو ابھی ٹھیک کر دیتا۔ موجودہ بڑے جج صاحب اپنے اس زمانے کے سارے خواب پورے کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت عملاً پاکستان کے حکمران ہیں، بغیر کسی ذمہ داری کے۔ چنانچہ کبھی کسی ہسپتال، کبھی کوئی کمپنی، جہاں دل کرتا ہے دھاوا بول دیتے ہیں۔ ایسے اعتراضات میں رشک و حسد کی بو محسوس ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی بھی نہیں ہو سکی اور جناب افتخار چوہدری کے زمانے میں عدلیہ نے جو عزت کمائی تھی، وہ بھی اب اس مقام پر نہیں رہی۔ حتیٰ کہ وکیلوں کی ہڑتال اور ججوں کی تنخواہ جیسے گھریلو معاملات بھی احسن طریقے سے آگے نہیں بڑھے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں سیاست دانوں اور افسرِ شاہی نے عوام کو فیض کیا، بُنیادی سہولیات تک نہ پہنچانے کا عہد کر لیا ہو، وہاں اگر چیف جسٹس پانی، صحت اور دیگر معاملات پر ایکشن نہ لے تو کیا کرے۔

پتھر دل سیاست دانوں اور افسران کے رحم و کرم پر تھر کے عوام کو سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دے؟ جہاں ہر صوبائی دارالحکومت کے علاوہ اسلام آباد میں بھی پانی نہ ملتا ہو۔ صحت، تعلیم، روزگارکی فراہمی سے عملاً انکار۔ یہ عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے کہ ازخود نوٹس لے۔ اس ہمدردی کی وجہ سے ساری قوم چیف جسٹس پر رشک و فخر کرتی ہے۔ فخر تو ظاہر ہے، رشک اس بات پر آتا ہے کہ لڑکپن کے دیکھے اتنے بڑے بڑے خواب پورا ہونا ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ وٹ اے لکی مین۔

ہم تو جج صاحب کے اور بھی کارناموں کے منتظر ہیں۔ اتنے سمارٹ زمانے میں، جناب ثاقب نثار کے ہوتے عمران خان کی ایک فون کال پر چھبیس منٹ میں زلفی بخاری کو اذنِ پرواز ملنے کا بھی کوئی جائزہ نہیں لیا گیا۔ جی نہیں! اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں۔ ہم تو سارے پاکستان کے عامیوں کے لیے بھی اسی قسم کی سہولیات چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی صرف اسی وقت ہو سکے گا جب چیف جسٹس اس کا اہتمام فرمائیں گے۔ ایک ناجائز اعتراض جناب پر یہ کیا جا رہا ہے کہ سرِ عام توہین کرنے میں جج صاحب کا ریکارڈ، عمران خان کے مقابلے کا ہے۔ معترضین اس معاملے میں جگر اور گردوں کے ہسپتال کے ڈاکٹر اور جناب عطا الحق قاسمی کی مثالیں دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ زیادتی ہے۔ بے حیثیت، بے نام، بے ہنر لوگوں کی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی پر ہر شریف آدمی کو غصہ آئے گا، اس کا خون کھولے گا اور ایسی حالت میں کچھ ایسے کلمات مُنہ سے نکل جانا جو عام حالات میں چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھے فرد کو زیب نہیں دیتے، کوئی بڑی بات نہیں۔

لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ عام حالات میں محترم چیف جسٹس ادب آداب کا خیال نہیں رکھتے۔ جب جناب راؤ انوار جو یقینا عمران خان اور شیخ رشید کے بعد تیسرے تصدیق شدہ صادق و امین قرار پائے جانے کی راہ پر گامزن ہیں، پریوں، جنات اور دیگر خلائی مخلوق کے جلو میں اپنے درشن کروانے، شاہی راستے سے عدالت تک تشریف لائے تو بڑے جج صاحب نے کھڑے ہو کر راو صاحب کا استقبال کیا، نیز خوش آمدیدی کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا ’آپ تشریف لے آئے! شکر ہے۔ ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کس قدر خوش اخلاق اور کھلے دل کے مالک ہیں۔

ان کے مداح ہونے کی وجہ سے ہم قوم کو یاد دلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، کہ اس وقت جج صاحب نے تن تنہا منصف، چیف اگزیکٹو، سر پرائز چیکنگ کمیٹی آف پاکستان، صحت، تعلیم اور مفادِعامہ کے تمام امور از قسم صاف پانی، حفظانِ صحت اور جرائم خصوصاً پنجاب میں زنا بالجبر اور کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف جہاد کا علم اُٹھایا ہے۔ ایک فردِ واحد نے اس وقت ستر اداروں اور ہزاروں نیک، ولی صفت لوگوں کا بوجھ یک و تنہا اُٹھانے اور ہر بگڑے کام کو ٹھیک کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ دن رات، ہفتہ اتوار دیکھے بغیر۔ وہ بھی اسی تنخواہ میں۔ کوئی اور ہوتا تو یہ سب کچھ کبھی نہ کر پاتا۔ لیکن معاشرے کی اصلاح اور آنے والی نسلوں کے لیے کچھ بہتر کرنے کی تڑپ موصوف کو متحرک رکھے ہوئے ہے۔ اسی وجہ سے اب جج صاحب نے ڈیم بناو تحریک شروع کر دی ہے۔

حسب معمول، اس تحریک میں بھی ہم تن من دھن سے چیف جسٹس کے ساتھ ہیں۔ متعصب، جانبدار، پاکستان کے مخالف، دشمن کے ایجنٹ ٹائپ لوگ ہی ایسے منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ جیسے کہ یہ اعتراض کہ عدلیہ کا ڈیم بنانے سے کیا تعلق؟ آج عدلیہ بند بنانے کے لیے پیسے اکٹھا کرنا چاہ رہی ہے۔ کل لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے بھی عوام سے ہی پیسہ اکٹھا کیا جائے گا۔ بغض اور حسد کے علاوہ ایسے اعتراضات میں جہالت کا عنصر بھی خوب نمایاں ہے۔ گویا کہ آج کل منہ بندی کے لیے پیسہ عوام کی جیب سے نہیں نکالا جاتا۔ پھر اب تو عدلیہ سے بھی مقدس ادارہ اس منصوبے کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ تاہم جج صاحب سے ایک گزارش ہے۔ بند بنانے میں دس سال، بارہ ارب ڈالر، لگیں گے۔ جو بڑھ سکتے ہیں گھٹ نہیں سکتے۔ تو عراق سے تریاق منگوانے کے بجائے اگر اسی رقم سے ڈی سلینیشن پلانٹ لگوانے کا کام شروع کر دیا جائے تو ملک و قوم کا بھلا جلد ہو سکتا ہے۔

ایک بڑا پلانٹ ایک ارب ڈالر میں لگ جاتا ہے۔ اگر اس کی تنصیب کا ٹھیکہ جناب شہباز شریف کو دے دیا جائے تو غالباً چھ ماہ سے ایک سال میں پلانٹ کام کرنا بھی شروع کر دے گا۔ اور یہ تو اب بلاول سائیں کو بھی علم ہو چکا ہے کہ اس پانی کو میٹھا بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان پلانٹس کے لیے عالمی اداروں سے بھی قرضہ انتہائی سستی شرح سود پر مل جائے گا۔ نیز عدلیہ اور فوج پاکستان کے سائنسی و صنعتی تحقیق کے سرکاری اداروں سے بھی معلوم کریں کہ آخر وہ پچھلے ستر سال سے کیا کر رہے ہیں۔ تمنا تو یہی ہے کہ مقامی سائنسی محقق اس ایک ارب ڈالر کو بھی کم کر سکیں۔ یہ بات طے ہے کہ اگر ایسے دس، بارہ پلانٹس سے کام کا آغاز کیا جائے تو سندھ، بلوچستان اور پنجاب کی پیاسی دھرتی کو ایک قابلِ اعتبار آبی ذریعہ مل جائے گا۔ نیز کراچی، حیدرآباد اور باقی سندھ کی پیاس بھی اسی سے سیراب ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).