جنرل غدار نہیں محب وطن ہیں


پاک فوج کی طرف سے عام انتخابات میں مداخلت کے حوالہ سے ملکی اور بین القوامی ردعمل کسی طور قابل تحیسن نہیں بین القوامی میڈیا میں جس طرح عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے لئے درکار اراکین کے حوالہ سے ”دو انچ شارٹ“ کی پھبتی کسی گئی ہے وہ اپنی جگہ خود شرمناک ہے۔ ملکی سلامتی کے حوالہ سے جنرلوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اس راہ میں کارگل بھی آتا ہے اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی اور افغانستان بھی“، اس راستے میں سابق سویت یونین اور موجودہ عالمی سپرپاور امریکی بھی آتے ہیں۔ 1971 کے بعد شروع ہونے والے سفر میں پاکستان نے مختلف اوقات میں سوویت یونین کے غصہ اور غضب کا سامنا بھی کیا اور اس دور میں پاکستان امریکی غصہ اور غضب کا شکار ہے جبکہ بھارت ہمیشہ سے ہی پاکستانی جنرلوں کے لئے کھیلنے والا کھلونا ہے۔

پاکستانی جنرلوں کے متعلق ایک تاثر موجود ہے وہ پنٹاگون کی پالیسی پر چلتے ہیں اور سٹاف کورس پر امریکہ جانے والے جونئر کمانڈر عام طور پر خرید لئے جاتے ہیں اور جب وہ مستقبل میں پاک فوج کی قیادت سنبھالتے ہیں تو پاکستان کی مسلح افواج کی پالیسوں کو امریکی مفادات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف دونوں فوجی سربراہ بھی رہے اور تمام ریاستی امور کے بھی تنہا ذمہ دار، ان دونوں جنرلوں کے اقدامات اور پالیسوں نے پاکستانی معاشرہ پر بے پناہ اثرات مرتب کیے اور دونوں جنرلوں کے دور اقتدار میں پاکستان حالت جنگ میں رہا۔

جنرل ضیا الحق پر ایک الزام تواتر سے لگایا جاتا ہے، امریکی ایجنٹ تھا اور قوم پرست بھٹو کو ایٹمی پروگرام کی پاداش میں عدالت کے ذریعے اپنی راہ سے ہٹا دیا اور امریکیوں کو خوش کر دیا۔ بھٹو کو راہ سے ہٹانے کے الزام کو کسی حد تک سچ سمجھا جا سکتا ہے لیکن امریکی ایجنٹ یا پاکستان کے مفادات کے خلاف اقدامات کا الزام سچا نہیں، پاکستان کا ایٹمی پروگرام اگر ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تو اس کی تکمیل کا تمام تر سہرا جنرل ضیا الحق کے سر ہے۔

اسی دور میں امریکیوں کو شاندار طریقے سے دھوکہ دیا گیا اور افغانستان میں امریکیوں کی مصروفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر سے ایٹمی پروگرام کے لئے درکار ساز و سامان خفیہ طریقے سے جمع کیا گیا اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہے جنرل ضیا الحق کے دور میں ایٹمی دھماکہ کا لیبارٹری ٹیسٹ کر لیا گیا تھا اگر جنرل ضیا الحق امریکی ایجنٹ ہوتا تو کسی کور کمانڈر کانفرنس میں سی ٹی بی ٹی پر دستخط کا فیصلہ کر لیا جاتا اور فوج میں چین اف کمانڈ کی وجہ سے کوئی پتہ بھی نہ ہلتا اور آج کا پاکستان ایٹمی پاکستان بھی نہ ہوتا۔

جنرل ضیا الحق نے پاکستان کو آگ اور خون میں دھکیل دیا، معاشرہ میں انتہا پسندی پیدا کی، ایم کیو ایم پیدا کی اور مذہبی انتہا پسندی کا جن بوتل سے نکالا یہ تمام الزامات سچے ہیں لیکن افغان جنگ کا حتمی نتیجہ ایک سپرپاور سوویت یونین کی تحلیل اور ایٹمی پاکستان کی صورت میں نکلا اور جہاں تک معاشرتی بگاڑ پیدا ہونے کی بات ہے تو معاشرے میں بگاڑ کو وقت کے ساتھ ختم کرنا ممکن ہوتا ہے اگر ایک طاقتور فوج موجود ہو اور اس کے پیچھے پوری قوم کی حمایت موجود ہو۔

جنرل مشرف پر جنرل ضیا الحق سے بڑا الزام ہے۔ دونوں کو امریکی ایجنٹ کہا جاتا ہے جنرل مشرف کی پالسیاں جنرل ضیا الحق کی حکمت عملیوں کا تضاد تھیں اور دونوں جنرلوں کی پالیسوں کا مرکز امریکیوں کی خوشنودی تھی، جنرل مشرف کے دور میں بھی پاکستان کو آگ اور خون میں دھکیل دیا گیا، خود کش حملے، آئی ایس ائی کے دفاتر پر حملے اور دہشت گردی کی انتہا خود جی ایچ کیو پر حملہ تھا۔

اس جنگ میں لیفٹنٹ جنرل بھی شہید ہوئے اور میجر جنرل بھی متعدد بریگیڈئر گھروں سے دفتر کے لئے نکلتے ہوئے حملہ آوروں کا نشانہ بنے اور متعدد براہ راست جنگ کا نوالہ بنے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے جتنے افسران جوانوں کے مقابلے میں شہید ہوئے دنیا کی فوجی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح ہے، لیکن اس جنگ کی قیمت دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی معاشی تباہی ہے، جنرل مشرف امریکیوں کا دوست نہیں تھا ایسا ہوتا تو امریکی افغانستان میں نامراد نہ ہوتے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قبضہ کے لئے قائم کردہ خصوصی ڈیلٹا فورس جو دس سال بگرام میں موقع کی تلاش میں موجود رہی نامراد ہو کر واپس امریکہ نہ جاتی اور نہ ہی امریکی حقانی نیٹ ورک کو بات چیت کے لئے میز پر لانے کے لئے پاکستانی جنرلوں کو کبھی گاجر اور کبھی ڈنڈا دکھانے پر مجبور ہوتے۔ آج معاشی بحران کی وجہ سے امریکی صدر ٹرمپ اپنے ہدف ادھورے چھوڑ کر افغانستان سے واپسی کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔

جنرلوں نے امریکیوں کے ساتھ دوہرا کھیل کھیلا انہیں افغانستان میں خوب ہی رسوا کیا اور اب افغانستان سے امریکیوں کی واپسی کے سفر کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور ساتھ ہی بھارت امریکہ ہنی مون کا خاتمہ بھی جو کئی سال تک افغانستان میں جاری رہا، اگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ بھارتی راہ کے سابق سربراہوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں تو اس کے پس منظر میں بھی بھارتیوں کو یہ بتانا ہوتا تھا ”امریکی تو واپس جا رہے ہیں غلطی نہ کرنا“۔

امریکیوں نے دھوکہ کی سزا دینے کے لئے بھارتیوں کے ساتھ مل کر پاکستانی طالبان کو جنرلوں کے لئے ایک خوفناک خواب بنا دیا تھا لیکن جنرل راحیل شریف کے ضرب عضب اور اپریشن ردالفساد اور اس سے پہلے جنرل کیانی کے ملاکنڈ کے کامیاب اپریشن نے امریکیوں اور بھارتیوں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو مٹی میں ملا دیا۔ سی پیک پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے ایٹمی پروگرام ایسی اہمیت رکھتا ہے بھٹو کو ایٹمی پروگرام کی سزا ملی لیکن ایٹمی پروگرام خود جنرلوں نے مکمل کیا، نواز شریف کو سی پیک کی سزا ملی لیکن ہمیں یقین کرنا ہو گا کہ سی پیک اسی طرح مکمل ہو گا جس طرح ایٹمی پروگرام مکمل ہوا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد خارجہ اور داخلہ پالیسوں پر جنرلوں کی مکمل گرفت ہے۔ موجودہ عام انتخابات بھی اسی گرفت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دنیا پاکستان کو بنیاد پرست ملک سمجھتی ہے لیکن عام انتخابات کے نتایج کے بعد عالمی میڈیا ”سیکس سمبل وزیراعظم بن گیا“ کی ہیڈ لائین لگانے پر مجبور ہے اور تمام انتہا پسند جماعتیں جنہیں ضرورت کے لئے قائم کیا گیا تھا یہ انتخابات ہار گئی ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں عالمی برادری سے بہت کھیل لیا اب اس کھیل سے خود کو الگ کرنے کا وقت ان پہنچا ہے اہداف حاصل ہو چکے اور خوب خوب بدنامی بھی مول لے لی۔ جنرل غدار نہیں محب وطن ہیں۔ جنرل مشرف سے جنرل ضیا تک کسی نے سوویت یونین کو اپنے پچھواڑے میں ٹکنے دیا نہ امریکیوں کو سانس لینے کی اجازت دی پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی مکمل کیا اور سی پیک کی بھی حفاظت کا یقینی طور پر کوئی پروگرام ہو گا اور ساتھ ساتھ بھارتیوں کو بھی مصروف رکھا، لیکن اب اپنا پاندان اٹھانے کا وقت ہے اور قومی یکجہتی کی ضرورت ان پڑی ہے، عام انتخابات میں جو کچھ ہوا اس کا ردعمل ملک و قوم کے لئے صیح نہیں اب چیزوں کو درست کرنے کا وقت ہے اور اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے کا بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).