لو آپ اپنے دام میں عمران آگیا


سنہ77 کے عام انتخابات کے بعد نتائج آنا شروع ہوگئے تھے۔ قوم کے مقبول ترین لیڈر، ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت آسمانوں کو چھو رہی تھی۔ حتیٰ کہ ایسے حلقے جہاں سے خود بھٹو کو اپنی شکست کا یقین تھا، وہاں سے بھی ان کی جماعت نے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا تھا۔ چند ایک مقامات پر احتجاج بھی شروع ہو گیا تھا۔ اس کے برعکس عمومی تاثر بھٹو کے حق میں تھا۔

قائدِعوام ذوالفقار علی بھٹو اپنی تھکا دینے والی انتخابی مہم کے بعد، اپنی تیسری اور خفیہ بیوی حسنہ شیخ کے کلفٹن میں واقع فلیٹ میں پہنچے۔ عام طور پر زندگی اور دلیلوں سے بھرپور بھٹو مرجھائے ہوئے تھے۔ حسنہ سے ان کا رشتہ محبت اور جذبات سے بھرپور تھا، لیکن اِس ملاقات میں وہ حد درجہ پریشان تھے۔ حسنہ نے اداسی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے ” میں آگے تباہی دیکھ رہا ہوں۔ ان کمینوں نے میری جیت کو ہار میں بدل دیا ہے۔ “ تباہی دیکھنے کے باوجود بھٹو نے خود کو طاقت کے نشے میں ڈبو لیا۔ مذاکرات سے خود کو لا تعلق کرلیا۔ اس لاتعلقی کے نتیجے میں ہی ان کی محبوب بیوی کو پاکستان اور خود بھٹو کو دنیا چھوڑنی پڑی۔

عمران خان اور بھٹو میں تیسری بیوی کے علاوہ بہت کچھ مشترک ہے۔ مگر بھٹو کے برعکس نہ تو وہ دلیلوں سے بھرپور شخص ہیں اور نہ ہی ان کی عوامی مقبولیت ان کی ذاتی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت وہ قوم کے مقبول ترین لیڈر ہیں مگر ان کی مقبولیت میں اداروں کی محنت اور سیاسی جماعتوں کی نا اہلی کا زیادہ دخل ہے۔ یہ کوئی خلائی باتیں نہیں۔ انتخابات سے پہلے محکمہ زراعت کی کارروائیوں، اہم لیگی امیدواروں کی جانب سے ٹکٹوں کی واپسی، 6 جولائی کے قانونی طور پر نہایت کمزور فیصلے، 13 جولائی کی نگران حکومت کی جانبداری اور 23 جولائی کی حنیف عباسی کی متنازعہ نا اہلی نے ان شبہات کو تقویت دی۔ ان شکوک کو مزید جلا ان ریاستی اداروں نے بخشی جن کی جانب سے خان صاحب کو تو حاضری سے استثناء دے دیا گیا مگر ان کے سب سے بڑے حریف، سابقہ مسلم لیگ ن موجودہ مسلم لیگ ش کی اعلیٰ قیادت، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر رہنماؤں کو آئے روز عدالتوں میں طلب کیا گیا۔

نواز شریف کی قید، شہباز شریف کے عدلیہ بلاؤں، لیگی امیدواروں پر دباؤ، چھوٹے میاں صاحب کی حد سے زیادہ خوداعتمادی اور قیادت کے لئے درکار صلاحیتوں اور بیانیہ کی کمی نے پہلے ہی طاقتور عمران خان کی جیت کی راہ ہموار کردی تھی۔ مخالفین کے سخت انتقامی احتساب پر عمران خان نے ایک طرف تو شادیانے بجائے تو دوسری طرف ان پیشہ ور سیاستدانوں کو اپنی جماعت میں شامل کیا جن کا ماضی داغدار تھا اور خود ان کے انقلابی نظرئیے کے خلاف تھا، مگر وہ انتخابات جیتنے اور اکثریت حاصل کرنے کے لیے ناگزیر تھے۔ اس طرح ان کی مقبولیت کے اندر ”انتخابات کی سائنس“ بھی شامل ہوگئی۔ ان تمام اقدامات کے باوجود انتخابات کے دن پولنگ سے لے کر نتائج تک کے مراحل کو متنازعہ بنایا گیا۔ فارم45 ہو یا پھر پولنگ ایجنٹس کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ہو، ان تمام اقدامات نے ان کے مخالفین کو نئی تقویت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن سے پہلے ہونے والے اقدامات پر خاموش رہنے والے بھی اب بول پڑے ہیں۔ یقینی طور پر چند ایک نشستوں کے نتائج روک کر یا پھر سادہ کاغذات پر نتائج دے کر اتنی زیادہ اکثریت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ لیکن ان اقدامات سے نہ صرف انتخابات سے پہلے کی نا انصافیوں کو ڈھانپ دیا گیا ہے بلکہ تحریک انصاف پر بھی ایک تلوار لٹکا دی گئی ہے جو بہرحال عوام کی اپنی چنی ہوئی اکثریت ہے۔

میری دانست میں ان تمام اقدامات کا نقصان حریفوں سے زیادہ خود عمران خان کو ہوا ہے۔ وہ سادہ اکثریت لے کر بھی اپنے پیشرو کی طرح ایک کمزور حکومت بنائیں گے۔ پچھلی حکومت کی طرح جب بھی وہ اہم ملکی معاملات پر فیصلہ سازی کرنے لگیں گے تو ان کو بھی سیاسی بحرانوں یا پھر عسکری لیکس (leaks) کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گوکہ ان کے انقلابی منشور میں ایسا کچھ نہیں جو ملکی اداروں سے ٹکراؤ کا باعث بنے۔ خارجہ پالیسی سے لے کر ملکی سلامتی کے معاملات تک، عمران کا انقلابی منشور مبہم ہے۔ مگر ملکی معیشت کے بیشتر معاملات اور اہم عسکری عالمی شراکت داروں کے متعلق ان کی سوچ تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کی حد سے زیادہ مقبولیت بھی ایک مسئلہ ہے۔

دوسری طرف مخالفین بھی اپنی بازو چڑھائے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک عمران خان ان کے خلاف سازش میں ایک مہرے سے بڑھ کر شراکت دار ہیں۔ ان کے مخالفین بھی ایک لندن پلان کے درپے ہیں۔ مگر اس بار یہ پلان لندن دبئی کی جگہ رائےونڈ، کراچی اور عمران کے زیرِ اثر کے پی کے میں بنایا جائے گا۔ اس پلان کے اہم کردار غیر سیاسی اور غیر پارلیمانی جماعتوں کی بجائے اہم سیاسی اور پارلیمانی جماعتیں نبھائیں گی۔ یہ پوری صورتحال اس جمہوری اور پارلیمانی نظام کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا فائدہ چند غیر سیاسی گِدھ اٹھائیں گے۔ نتیجے میں لولی لنگڑی بیمار جمہوریت کو مردہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ قوی امکان اس امر کا ہے کہ عمران خان کی اپنی جماعت سے فاروق لغاری تلاش کیا جائے گا جس کی ڈور آسانی سے ہلائی جا سکے۔

اب ذمہ داری عمران خان پر ہے۔ وہ ماضی میں اپنی کی جانے والی غلطیوں کا ازالہ کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کی خود تحقیقات کروائیں، نیب کو سیاسی انتقام کی بجائے ایک آزاد احتسابی ادارہ بنائیں اور جمہوریت کو مضبوط کریں یا پھر ذوالفقار علی بھٹو کی طرح تباہی دیکھنے کے باوجود جیت کے نشے میں مست ہو جائیں۔ بہرحال ان کا ماضی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ لہذا ہم محتاط انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ
لو آپ اپنے دام میں عمران آگیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).