چند اعترافات اور میری سیاسی توبہ


بس بہت ہو چکا۔ اب میں مزید قوم کے مستقبل سے نہیں کھیل سکتا۔ میرا ضمیر مجھے مسلسل ملامت کر رہا ہے۔ اس لیے اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کچھ اعترافات کرکے اپنے ذہن کا بوجھ ہلکا کرلوں اور ساتھ ہی اپنے طرزعمل پربھی نظر ثانی کرلوں۔

میری عادت رہی ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین اورنقادوں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، ڈیزل، غدار وطن، ہندوستانی و اسرائیلی ایجنٹ، اسلام دشمن حتیٰ کہ کافر تک قرار دیتا آیا ہوں اگرچہ میرے پاس ان باتوں کے لیے کوئی ثبوت بھی نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ آج سے روک رہا ہوں۔ اپنے سب کارکنوں کو بھی الزام تراشی کی سیاست سے اجتناب کرنے کی استدعا کرتا ہوں۔

مجھے پتا ہے یہ جو میں اپنے مخالفین پر اربوں کھربوں لوٹنے اور ملک دشمنوں سے ساز باز کرنے کا الزام لگاتا ہوں اس میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے تاہم اپنے سیاسی فائدے کے لیے میں لگاتار یہ الزام دہراتا آیا ہوں۔ مجھے معلوم ہے میری ان باتوں سے نوجوان نسل کے ذہنوں میں ان رہنماٶں کے خلاف زہر بھرگیا ہے۔ اب تلافی کا وقت آ گیا ہے۔ میں ان سب سے معافی مانگتا ہوں اور اپنے پیروکاروں اور سب کے سامنے برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میرے پاس ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں۔ بغیر ثبوت کے الزام لگانا قانون، اخلاق اور شریعت سب کی رو سے نامناسب ہے اس لیے میں یہ تمام الزامات واپس لیتا ہوں۔ آیندہ ایک ذمہ دار رہنما کے طور پر اس کام سے میں بھی اجتناب کروں گا اور آپ سب بھی۔

میں نے ناحق قوم کو اپنے اور دوسروں کے حامی کیمپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ جو میرے ساتھی ہیں انھیں میں ایمان دار اور محب وطن جب کہ اپنے مخالفین اور ان کے حمایتیوں کو میں بے ایمان، زر خرید، وطن دشمن اور گدھے کہتا رہا ہوں۔ یہ سلسلہ میں فوری طور پر روک رہا ہوں کیوں کہ جمہوریت اور آزادی رائے اپنی مرضی کے رہنما کے انتخاب اور اس کی حمایت کے بغیر بے کار محض ہے۔

اپنے سیاسی فائدے کے لیے میں جھوٹا پروپگنڈہ کرتا آیا ہوں۔ اس کے لیے ہزاروں لوگوں پر مشتمل باقاعدہ سوشل میڈیا ونگ بنایا ہوا ہے۔ جس نے بھی میرے یا میری پارٹی کے خلاف لکھا یا بات کی، اس کو بد نام کرنے کے لیے اپنے سوشل میڈیا ونگ اور پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کو اشارہ کر کے اس کے پیچھے لگاتا آیا ہوں۔ اب یہ سلسلہ بھی روک رہا ہوں۔ اب ہمیں ہر شخص کی عزت کا خیال رکھنا ہے چاہے وہ حامی ہے یا مخالف۔

یہ نہایت قابل افسوس بات ہے کہ اس ملک کے اداروں کو میں نے ہر ممکن طریقے سے اپنا غلام بنانے کی کوشش کی۔ یہ نہ ہو سکا تو انہیں مخالفین کا ایجنٹ اور زر خرید قرار دیا۔ ہر ایمان دار سرکاری افسر اور اہل کار، جو میرٹ پر کام کرتا اور یوں میرے لیے خطرہ ہو سکتا تھا، کو میں نے چوروں اور ڈاکووں کا ساتھی گردانا۔ یہ طرزعمل بھی اب روک رہا ہوں۔ یہ سب ہمارے بھائی ہیں۔ یہ سب ادارے ہمارے پاس آنے والی نسل کی امانت ہیں۔ ان کو ترقی دینا اور ان کی نیک نامی میں اضافے کے لیے کوشاں رہنا ہر ایک کا فرض ہے۔

میرا ایک اور قبیح طرزعمل یہ ہے کہ میں بڑا خود غرض واقع ہوا ہوں۔ انتخابات میرے لیے تبھی آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہوتے ہیں جب میں اور میری پارٹی جیت جائیں ورنہ پھر جھرلو، الیکشن نہیں سیلیکشن، آر اوز کا الیکشن، پینتیس پنکچر، سیکورٹی اداروں کی مداخلت اور عظیم الشان دھاندلی کی اصطلاحات استعمال کر کے نتائج کو مسترد کرنا، دوبارہ الیکشن کے لیے تحریک چلانا اور دھرنے دینا میرا معمول رہا ہے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام کے فیصلے کے مطابق اپنے مخالفین کی فتح اور مینڈیٹ کو مانوں گا، ان کو فوری مبارک باد دوں گا اور کبھی دوبارہ انتخابات اور منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک نہیں چلاوں گا۔

ایک سیاست دان ہوتے ہوئے بھی میں پارلیمنٹ، جمہوریت، انتخابات، سیاسی نظام اور حکومتی اداروں کو گالیاں دیتا آیا ہوں۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے خلاف غیر جمہوری ملکی اور بیرونی قوتوں سے ساز باز کرتا رہا ہوں۔ ہر نظام میں خرابیاں اور کم زوریاں ہوتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جذباتی باتیں اور تعمیم اختیار کرتے ہوئے نظام کے سارے مظاہر کو کرپٹ، غلط اورجعلی قرار دیا جائے۔ یہ عادت بھی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ہم سیاسی تبدیلی و اصلاح کے لیے کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے لیے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ تب ملک و قوم کے لیے مثبت نکلتا ہے جب ان سے پہلے سماج میں شعور، ہم دردی و قربانی، تحمل، رواداری، حق کے لیے کھڑے ہونے اور ایمان داری کی صفات راسخ ہو جائیں؛ ہم اپنے مفاد کے لیے بس سیاسی تبدیلی کی رٹ لگاتے رہے۔ نوجوانوں کو اپنے مفاد کے لیے احتجاج و ہیجان کا رسیا بنایا۔ اگر چہ ہم ایک آئین و قانون کے حدود میں کام کرنے والی پارٹی ہیں لیکن نوجوانوں کے سامنے خود کو انقلابی اور فوری ”عوامی انصاف“ پر یقین کرنے والی تنظیم کے طور پر متعارف کروایا۔ سرکاری اداروں اور اہل کاروں پر ان سے حملے کروائے۔ آج کے بعد مگر ہم ایسا نہیں کریں گے۔ اب سماجی و سیاسی اصلاح دونوں کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔

میں سیاست تو یہاں کر رہا ہوں لیکن میرے اکثر اثاثے بیرون ملک پڑے ہوئے ہیں۔ ان اثاثوں کی بابت یہاں کوئی ادارہ پوچھے تو میں اپنی سیاسی پارٹی کے بل پر ایسی کوشش کو انتقامی کارروائی قرار دے کر بچنے کی کوشش کرتا آیا ہوں۔ اس سے کام نہ چلے تو پھر متعلق ادارے پر تابڑ توڑ حملے کر کے اسے دفاعی پوزیشن پر  لے جانے کی کوشش شروع کر دیتا ہوں۔ ورنہ پھر ایک بڑا وکیل کر کے اور تاخیری حربے اختیار کرکے احتساب سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے بعد اپنی تعلیم اور ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے مسلسل جھوٹی اور بار بار تبدیل ہونے والی باتیں کرکے تفتیش کاروں کو چکرانے کی سعی کرتا آیا ہوں۔ اب میں نے اپنے سارے اثاثے ملک واپس لانے اور ان پر واجب الادا پورا ٹیکس دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ابھی تک اپنی پارٹی میں اصلی جمہوریت اورآزادی رائے کو پنپنے نہیں دیا ہے۔ پارٹی کو صرف اپنا فین کلب بنایا ہے۔ جس نے بھی مجھ پر تنقید کی ہے یا پارٹی میں اصلاحات کے لیے آواز اٹھائی ہے تو خوشامدی ٹولے کی انگیخت پر اس بے چارے کو پارٹی میں کھڈے لائن لگایا، یا بے عزت کرکے نکالا ہے۔ ایک سیاسی جمہوری رہنما کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ خود کو تنقید و احتساب سے بالاتر قرار دے کر آمر بن جائے۔ آیندہ آپ میرے طرزعمل اور پارٹی سیاست میں اس حوالے سے بھی خوش گوار تبدیلی محسوس کریں گے۔

میرے ملک و قوم کے خلاف جب دہشت گردوں نے خونی کھیل شروع کیا تو اپنی جان کی سلامتی اور سیاسی فائدے کے لیے ان کے خلاف قومی آواز کا حصہ نہیں بنا۔ دہشت گردوں پر تنقید کی جرأت مجھ میں تھی نہیں اس لیے ذہن میں آیا کیوں نہ اس سفاکیت کو بلیک واٹر، موساد اور را کی کارستانی اور اسلام دشمنوں کی سازش قرار دے سرے سے تنقید کی ضرورت ہی ختم کردوں۔ یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا۔ عوام میں کنفیوژن تو پیدا ہوئی مگر دہشت گرد اتنے خوش ہوئے کہ انھوں نے ہمیں اپنا نمایندہ بھی قرار دیا۔ مجھے احساس ہے ایسا کر کے میں نے اپنی قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ اب میں قوم کے ساتھ ہوں گا اور دہشت گردوں کو اپنا دشمن سمجھوں گا۔

میری عادت رہی ہے کہ میں خود کسی سیاسی و مذہبی رہنما کے پاس جاتا ہوں نہ رابطہ کرتا ہوں۔ اس طرح کوئی رہنما بیمار ہو جائے تو نہ اس کے پاس جاتا ہوں، نہ فون کرتا ہوں۔ اب میں سب سے رابطہ کرنے میں پہل کروں گا اور سب کی عزت کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).