آزاد گھوڑے اور متوقع وزیر اعظم کی بگھی


گھوڑا وفادار اور انسان دوست جانور ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس کی انسان سے دوستی اور وفاداری شروع کب ہوئی۔ ارتقائی محققین فرماتے ہیں کہ پہلا گھوڑا آج سے کوئی ساڑھے پانچ کروڑ سال قبل کرہ ارض پر نمودار ہوا ہو گا۔ عربی اور ترکی نسل کے گھوڑے دنیا میں بہترین تصور کیے جاتے ہیں۔ گھوڑے کو استعمال میں لانے کے لیے باقاعدہ سدھانا پڑتا ہے لیکن گھوڑوں کو سدھانے کی تاریخ جاننے کے لیے کون انسانی تہذیب کی ضخیم ترین کتاب کی ورق گردانی کرے۔ یہ عمل عام قیاس سے بھی پرانا ہے۔

محققین ہی بتاتے ہیں کہ لگ بھگ 4000 سال قبل مسیح میں انسانوں نے پہلی بار گھوڑوں کو پالتو بنایا۔ گھوڑوں کو سدھا کر کام میں لانے کا عمل تاریخی طور پر انسانی ثقافت سے پیٹ اور روٹی کے مانند جڑا رہا ہے۔ پیٹ اور روٹی کے ذکر سے یاد آیا کہ میکسیکو، فرانس، جرمنی، سوئٹزر لینڈ، بیلجیم، پولینڈ، چین، جاپان انڈونیشیا، قازقستان سمیت کئی جنوبی امریکی اور یورپی ممالک میں گھوڑے کا گوشت بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ قازقستان کے لوگ تو مقامی طور پر تیار کردہ ایک شراب جسے ’کومس‘ کہتے ہیں، کو مزید نشہ آور بنانے کے لیے اس میں گھوڑی کا دودھ لازمی ملاتے ہیں۔

گھوڑا زمانہ قدیم ہی سے اقتدار کے حصول میں استعمال ہوتا آیا ہے۔ پرانے زمانے میں توپ و تفنگ اور ایٹم بم جب انسان نے ایجاد نہیں کیے تھے اور جنگ و جدل کا انحصار زیادہ تر قوت بازو اور لشکریوں کی تعداد پر ہوتا تھا، تبھی جنگیں جیتنے کے لیے جتنے زیادہ لڑنے والے بندے، تیر، کمانیں، تلواریں، خنجر، بھالے وغیرہ چاہیے ہوتے تھے اتنے ہی طاقت ور اور تیزرفتار گھوڑے بھی لشکر کی کام یابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ برصغیر کی دھرتی گھوڑوں کے سموں سے خوب واقف ہے کیوں کہ سکندراعظم کے گھوڑوں سے لے کر کے عربی، ایرانی، افغانی، ترکی، ہسپانوی، انگریزی اور نجانے کس کس نسل کے گھوڑوں کے سموں تلے سیکڑوں بار روندی گئی۔ اس حوالے سے تو ہمارا تعلق اس جانور سے تاریخی ہے۔ جنگوں میں گھوڑوں کا استعمال تو فی زمانہ متروک ہو چکا ہے البتہ ہمارے یہاں اقتدار کی سمت کا تعین اب بھی گھوڑے ہی کرتے ہیں۔

پاکستان میں گھوڑوں کا گوشت کھایا جاتا ہے نہ دودھ پیا جاتا ہے لیکن تانگا کھنچنے سے لے کر کے سیاسی سرکس میں دوڑانے اور نچانے کے لیے گھوڑے ضرور استعمال ہوتے ہیں۔ سیاسی گھڑ دوڑ میں آزاد گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔ گھوڑوں کی یہ خاص الخاص نسل پوری دنیا کو چھوڑ کر صرف پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ ان کا دیدہ و نادیدہ اصطبلچی جدھر لگامیں کھینچے یہ ادھر مڑ جاتے ہیں۔ جو گھوڑا تھوڑی بہت ٹیڑھ مغزی دکھائے، اگلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ہنہنانے لگے یا کھڑے کھڑے خوامخواہ دولتیاں مارنے لگے اور اصطبلچی کے لیے پریشانی کا سبب بنے اسے بیک جنبش ِ چابک سیدھا کر لیا جاتا ہے لیکن ایسی نوبت شاذ و نادر ہی آتی ہے۔ عموماً یہ بڑے تابع فرمان ہوتے ہیں۔ اسپ شناس حضرات کے مطابق ذہین گھوڑا دراصل اپنی تربیت کرنے والے کی ذہانت کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان میں 25 جولائی کو انتخابات کی منڈی سجی۔ عوام نے اس منڈی میں لگے اصطبلوں سے اپنی اپنی پسند کے گھوڑوں کو چنا۔ لیکن اس چناؤ کے عمل میں خاصی تعداد میں ایسے آزاد گھوڑوں کو بھی چن لیا جو کسی مخصوص اصطبل سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔

اب ان آزاد گھوڑوں کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ خرید و فروخت عروج پر ہے۔ خریدار منہ مانگے دام دینے کو تیار ہیں۔ یہ گھوڑے اقتدار کے لکی نمبر کے حصول کے لیے ”نمبر گیم‘‘ کا جزو لانیفک بن چکے ہیں، بلکہ ساری گیم ہی ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہی گیم بنائیں گے اور یہی بگاڑیں گے۔ یہ سارے گھوڑے متوقع وزیراعظم کی بگھی میں جوت کر انھیں اقتدار کی مسند تک لے جایا جا رہا ہے اور آیندہ پانچ سال (اگر یہ پانچ سال چل گئے) کے لیے یہ گھوڑے اقتدار کی بگھی کھینچتے رہیں گے۔

اسپ شناس حضرات یہ بھی بتاتے ہیں کہ گھوڑے شکار ہونے والے جانور ہیں۔ ان کی حسّیں عام انسانوں کی نسبت بہت تیز ہوتی ہیں، خاص طو رپر ان کی قوت سامع، شامہ اور باصرہ بہت تیز ہوتی ہیں۔ خطرے کا احساس دیگر جان داروں کی نسبت بہت پہلے ہو جاتا ہے اور خطرے کی صورت میں ان کا پہلا ردِ عمل فرار کا ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو ہماری جمہوری بگھی کو کھنچنے والے یہ آزاد گھوڑے بھی دوسرے ہی سال کسی نامعلوم سمت سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم کی بگھی کو شاہ راہ دستور پر چھوڑ کر کسی اور چراگاہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).