انتخابات میں جیت کا نہیں انا کا جشن تھا


پچیس جولائی 2018ء عام انتخابات کے دن، کسی فیس بک فرینڈ کے اسٹیٹس کے مطابق، ”یہ تو عید کے دن کا سماں ہے“۔ ہر طرف پارٹی پرچموں کی بہار، دیواروں پہ سیاسی نعرے اور ہلا گلا تھا۔ بطور شہری میں اس روز اپنا فرض ادا کرنے، اپنے آبائی علاقے کے چھوٹے سے گاؤں کی طرف روانہ ہوئی؛ اس لیے کہ میرا ووٹ مستقل پتے پہ رجسٹرڈ تھا۔ یوں تو ہمارا گاؤں چھوٹا نہیں ہے، پر زیادہ تر افراد بہتر وسائل کے حصول کے لیے شہر میں منتقل ہو چکے ہیں اور یہاں کم کم آتے ہیں۔

قومی اسمبلی کے حلقہ 219، صوبائی اسمبلی کے حلقہ 49 میں شامل، تعلقہ کوٹ غلام محمد ضلع میر پور خاص میں واقع ہے؛ اسے پوسٹ آفس کا درجہ بھی حاصل ہے۔ ہر بار ہونے والے انتخابات میں ہمارے گاؤں کے بوائز پرائمری اسکول میں پولنگ اسٹیشن قائم ہوتا ہے۔ یہاں پہ مرد و زن کے مشترک پولنگ بوتھ قائم کیے جاتے ہیں۔ اس دفعہ ہماری پولنگ پہ بڑا کانٹے کا مقابلہ ہونے والا تھا، اور گہما گہمی قبل از انتخابات ہی دکھائی دے رہی تھی۔ سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے امیدوار کے مد مقابل آزاد امیدوار تھے۔

میں صبح سویرے اٹھ کے گاؤں کو روانہ ہوئی، جو کہ میر پور خاص سے چالیس پچاس کلومیٹر کی دوری پہ ہے۔ آسمان پر ہلکے بادل تھے، جس کی وجہ سے سورج کی تپش کم ہو گئی تھی؛ ہوا چل رہی تھی۔ اس آدھے گھنٹے چالیس منٹ کی مسافت میں لوگوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر دکھائی دی۔ سڑک پہ نہ بس، نہ ٹرک، نہ کار، نہ کوئی رکشا دکھائی دیا۔ اکا دُکا موٹر سائکلیں دکھائی دیں۔ گاؤں پہنچی تو دیکھا، کہ پولنگ اسٹیشن کے باہر کوئی ڈیڑھ درجن گاڑیاں، کوئی پچیس موٹر سائکلیں کھڑی ہوئی ہیں۔ جوان اور بچے صبح سویر نہا دھو کے، نئے کپڑے پہن کے، بالوں پہ تیل لگا کے، سج سنور کے آئے ہوئے تھے۔

اسکول کے صحن میں فوجی کھڑے ہوئے تھے، اور صبح نو بجے ہی قطار لگ چکی تھی۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر والے کھلے میدان کی طرف دیکھا، تو دو شامیانے ایک دوسرے کے مد مقابل لگے ہوئے تھے اور بیچ میں راستہ تھا۔ وہاں بہت سے لوگ اور بچے اپنی اپنی حمایت یافتہ لوگوں کے شامیانے کی اندر کھڑے ہوئے تھے۔ دونوں طرف ہی خاصا مجمع دکھائی دیا۔ ہر کسی کے پاس پارٹی جھنڈے تھے اور اپنے ووٹروں کی لسٹیں، اور وہ نمبر والی پرچی دیے جا رہے تھے۔ مجھے محسوس ہونے لگا کی یہ عید کا ماحول ہے، جو لوگ سالہا سال کبھی گاؤں کا چکر نہیں لگاتے تھے، وہ سب آج جمع ہیں۔ گاؤں والے گھر سے ہو کے میں کچھ دیر بعد اپنا اصلی قومی شناختی کارڈ لے کے پولنگ اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئی۔

میں جب خواتین والی پولنگ بوتھ میں گئی، دیکھا کہ دو خواتین، ایک مرد اور دو خواتین ایجنٹ کی طور پہ اپنے اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ میں نے اپنا ووٹ ڈالا، اور واپس آ گئی۔ سارا دن پولنگ چلی، اور لوگ ووٹروں کہ گھر جا جا کے ان کو لے کہ آ رہے تھے، کہ چلو ووٹ دو۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کس نام کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے لیے ہم کو کہا جا رہا ہے، بس ان کو صرف انتخابی نشان بتایا جا رہا تھا۔ کہ فلاں نشان پہ دونوں ووٹ دے آنا۔ اب شام کے چھہ بجنے کو تھے، دونوں گروہوں میں یہ بے چینی بڑھتی جارہی تھے کہ کون ہماری پولنگ اسٹیشن سے جیتے گا، اور کس کے حامیوں کو شکست نصیب ہوگی۔ ان میں خاصے لوگوں کو تو یہ بھی غرض نہ تھی، کہ ان کا حمایت یافتہ امیدوار وہ نشست بھی جیت جائے گا یا نہیں؛ پر فکر تو یہ کہ جس کو ہم نے کھل کر اسپورٹ کیا اس کو ہماری پولنگ اسٹیشن سے کسی قیمت پہ بھی ہار نصیب نہ ہو۔ یوں ہم سرخ رُو ہوجائیں۔ ان کو اس امیدوار سے ہم دردی تھی یا نہیں، پر اتنا صاف نظر آیا کہ جیت جانا ان کی ناک اونچی کر سکتا تھا۔

سادہ لفظوں میں یہ کہوں کہ جیت جانا دونوں شامیانے میں بیٹھے لوگوں کے لیے غیرت اور انا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ ان کو ابھی اس بات کی بھی فکر ہوتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی کہ ہم جسے جتوانے گے کیا وہ ہمارے کام بھی کرے گا یا چھو منتر ہوکے ایک کراچی اور دوسرا اسلام آباد کے طرف اڑان بھر کے آیندہ پانچ سالوں کے لیے نظر سے دور ہو جائے گا۔ مغرب کی اذان ہونے کو تھی اور اندر ووٹوں کی گنتی جاری تھی۔ بالآخر دھڑکنیں کسی ریل گاڑی کی طرح تیزی پکڑنے لگیں۔

ووٹوں کی گنتی کے بعد باہر آ کے بتایا گیا کہ آپ کے پولنگ اسٹیشن سے بڑی نشست، بڑی سیاسی جماعت کا امیدوار اور چھوٹی نشست پہ آزاد امیدوار کام یاب ہوا ہے۔ یہ بات کانوں میں پڑنے کی دیر تھی، کہ سب اپنی اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ اسپیکر پہ اپنی امیدوار کے گانے لگا کے، جھومنے لگے۔ پھر ایک دو نے تو ہوائی فائرنگ بھی کر ڈالی۔ اپنا پارٹی پرچم ہاتھ میں لے کے خوب نعرے بھی لگائے۔ ان کو پتا تھا کہ ہمارا گاؤں کوئی تبدیل نہ ہو جائے گا۔ نہ ہی ٹوٹی پھوٹی ہوئی سڑکیں نئی چمکتی دمکتی بن جائیں گی۔ پر اس روز الیکشن کی جیت کا نہیں، اپنی اپنی انا کا جشن تھا جو دونوں طرف سے منایا گیا۔

یہ مقابلہ کبھی اہمیت نہ پکڑتا اگر گاؤں والے دو گروہوں میں نہ بٹ جاتے، پر ایک دوسرے کی مخالفت اور انا کی جنگ نے گاؤں والوں کو ایک دن کی تفریح ضرور مہیا کی، جو کہ بہت دنوں تک ان کے زیر بحث رہے گی۔ پر اس انا کی جیت میں یہ دونوں مخالف گروہ بھول گئے کہ اگر ہم انتخابی مہم کے دوران اپنے پسندیدہ امیدوار سے گاؤں کی ترقی کے لیے کوئی وعدہ بھی لے لیتے، گزشتہ سالوں میں نظر انداز کرنے پہ کوئی شکوہ کر لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).