حکمرانوں کے دسترخوان


پاکستان تحریک انصاف الیکشن جیت کر سادہ اکثریت لینے کے بعد حکومت بنانے کے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ آئے روز عمران خان کی رہائش گاہ پر غیر ملکی سفیروں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ عمران خان کی سعودی سفیر سے ہونے والی ملاقات کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے جاری کی جانے والی تصویر نے جہاں اک طرف مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں کی جانے والی بغاوت کے غبارے سے ہوا نکال دی، وہاں تصویر میں سعودی سفیر کے سامنے رکھی سادہ پانی کی بوتل نے اک نئی بحث کو جنم دیا کہ عمران خان عوام کے پیسوں سے چلنے والے سرکاری کچنز کا خرچہ کم کریں گے۔

یہ اسی بحث کا نتیجہ تھا کہ چینی سفیر سے ملاقات کے بعد جاری کی جانے والی تصویر میں مہمان سفیر کے سامنے سے پانی کی بوتل بھی غائب تھی۔ ویسے واقفان حال بیان کرتے ہیں کہ ذاتی حیثیت میں عمران خان بالکل بھی مہمان نواز نہیں۔ مہمانوں کو چائے پانی کا بھی نہیں پوچھتے۔ متعدد بار ایسا ہوا پارٹی میٹنگز میں کور کمیٹی کے سامنے صرف اپنے لیے لنچ منگایا حتیٰ کہ قریبی دوستوں کے ساتھ بھی ان کا یہی رویہ ہے کہ اک سینڈونچ منگا کر بغیر صلاح مارے خود کھا گئے۔ نہیں معلوم ان کی یہ عادت ان کی پارٹی کے پرویز خٹک نے کیوں نہیں اپنائی تھی کیونکہ کے پی کے وزیراعلیٰ کا کچن خرچہ کروڑوں روپے تھا دستاویزات کے مطابق پرویز خٹک کا چھ ماہ کا کچن خرچ پانچ کروڑ سات لاکھ روپے سے زائد تھا۔

پاکستانی حکمرانوں کی یہ شاہ خرچی نئی نہیں ہے۔ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہندوستان پر سینکڑوں سال حکومت کرنے والے مسلمان بادشاہوں کا دسترخوان ہمیشہ بھرا رہتا تھا حتیٰ کہ مغلوں کے زوال کے دور میں بھی اس میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

انتظار حسین کی کتاب، دلی جو ایک شہر تھا، ، کے مطابق آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے دسترخوان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نکتی پلاؤ، نورمحلی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، سالم بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، کھچڑی، شوالہ (گوشت میں پکی ہوئی کھچڑی) اور قبولی ظاہری۔

سالنوں میں قلیہ، دوپیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتہ، چنے کی دال کا بھرتہ، بینگن کا دلمہ، کریلوں کا دلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال، سیخ کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، خطائی کباب اور حسینی کباب شامل ہوتے تھے۔

روٹیوں کی یہ اقسام ہوا کرتی تھیں۔ چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، خمیری روٹی، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان، نان پنبہ، نان گلزار، نان تنکی اور شیرمال۔

اب میٹھے کی طرف نظر ڈالیے۔ متنجن، زردہ مزعفر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نمش، روے کا حلوہ، گاجر کا حلوہ، کدو کا حلوہ، ملائی کا حلوہ، بادام کا حلوہ، پستے کا حلوہ، رنگترے کا حلوہ۔

مربے ان قسموں کے ہوتے تھے۔ آم کا مربا، سیب کا مربا، بہی کا مربا، ترنج کا مربا، کریلے کا مربا، رنگترے کا مربا، لیموں کا مربا، انناس کا مربا، گڑھل کا مربا، ککروندے کا مربا، بانس کا مربا۔
مٹھائیوں کی اقسام یہ تھیں۔ جلیبی، امرتی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، بالو شاہی، در بہشت، اندرسے کی گولیاں، حلوہ سوہن، حلوہ حبشی، حلوہ گوندے کا، حلوہ پیڑی کا، لڈو موتی چور کے، مونگے کے، بادام کے، پستے کے، ملاتی کے، لوزیں مونگ کی، دودھ کی، پستے کی بادم کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی اور پستہ مغزی۔

یہ مزےدار رنگا رنگ کھانے قابوں، رکابیوں، طشتریوں اور پیالوں پیالیوں میں سجے اور مشک، زعفران اور کیوڑے کی خوشبو سے مہکا کرتے تھے۔ چاندی کے ورق الگ سے جھلملاتے تھے۔ کھانے کے وقت پورا شاہی خاندان موجود ہوتا تھا۔ اس کے ادب آداب علیحدہ سے تھے۔

تقسیم کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں کے دسترخوان ہمیشہ سے انواع و اقسام کے کھانوں سے مہکتے رہے۔ ہمارے حکمران ہمیشہ سے اس بابت بہت حساس رہے ہیں۔ تاریخ میں ایسے وزیر اعظم اور صدر بھی گزرے ہیں۔ جنہوں نے زرعی ترقی کو اپنانے سے انکار کرتے ہوئے مکمل آرگینک فوڈ کا اہتمام کیے رکھا۔ ان کی روٹی کے لیے خاص طور پر گندم کاشت کی جاتی رہی ہے جس میں کسی قسم کی کھاد کا استعمال ممنوع تھا۔ سبزیوں سے لے کر دیسی انڈے مرغیاں ہرن بکرے ہوں یا مخصوص بھینسوں کے باڑے کا خالص دودھ، ، مرچ مصالحہ جات سے لے کر کوکنگ آئل تک خصوصی طور پر تیار کیا جاتا رہا ہے۔ اور اس سب تام جھام کے لیے پیسہ سرکاری خزانے سے جاتا رہا ہے ہمارے پچھلے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان سے پچھلے نواز شریف صاحب بھی مخصوص کھانوں کے ایسے شوقین تھے کہ ان کے لیے خصوصی ناشتہ بذریعہ سرکاری ہیلی کاپٹر لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر کرتا۔

خیر اب اطمینان کی بات یہ ہے کہ عمران خان خود وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ ان کی کفایت شعاری کام آئے گی اور ملکی خزانے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ امید واثق ہے صوبے بھی ان کی تقلید کریں گے۔ ویسے بھی جب ملک کے وزیر اعظم کا کچن خرچ برائے نام ہو گا تو صوبوں کے پاس کروڑوں خرچنے کا جواز باقی نہیں رہے گا۔ اگر پھر بھی کوئی ایسا کرتا ہے تو اس سے باز پرس کی جانی چاہیے۔

ویسے میرا تجربہ ہے ذاتی حیثیت میں جو لوگ مہمان نواز ہوتے ہیں نوازے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر میرا ایمان ہے اگر آپ مالی تنگدستی کا شکار ہیں تو اپنے سے نچلے طبقے کی مدد کریں اک روپیہ خیرات کریں گے چار گنا واپس آئیں گے۔ برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں میری معلومات میں اک تو حنا ربانی کھر کے والد ملک نور ربانی دوسرا چوہدری برادران ایسے سیاستدان ہیں جن کا دسترخوان بہت وسیع ہے۔ کیا غریب کیا امیر جو بھی ان کے ڈیرے پر گیا انہوں نے پکڑ کر دستر خوان پر بٹھا دیا کہ روٹی شوٹی کھا کے پھر بات کرتے ہیں۔ چوہدری برادران کی یہ عادت مجھے بہت پسند ہے۔

دوسرا انہوں نے اپنے دور حکومت میں سرائیکی وسیب میں کارڈیالوجی ریسیکیو وارڈنز ٹیکنیکل کالجز سمیت کئی میگا منصوبے دیے اس لیے بھی میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ آج کے ایسے دور میں جب بھائی بھائی کا دشمن ہے ان کزنز کا آپسی اتفاق بھی مثالی ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے فواد چودھری صاحب نے گجرات میں چودھری پرویز الہی اور چودھری شجاعت حسین کے ڈیرے کا دورہ کیا ہے۔ جس میں فواد چودھری نے اُن کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جبکہ اس سے قبل چودھری شجاعت نے اِن کو کھانے کی دعوت دی۔ روٹی شوٹی کھانے کے بعد کیا طے ہوا یہ ابھی آف دی ریکارڈ ہے ہمیں فقط اتنا معلوم ہے کہ دنیا کا ہر مسئلہ کھانے کی میز پر حل کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).