اب آپ کیسے خود ڈرامہ بنا سکتے ہیں؟


ٹیلے ویژن پروگرام پروڈکشن میرا شوق کَہ لیجیے؛ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، کہ اس کام میں پڑ کے رقم کمائی جا سکے گی۔ یہ کل کی بات لگتی ہے، میں نیشنل اسٹوڈیوز اسلام آباد میں کسی کام کے سلسلے میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا، کہ ساتھ بیٹھے ایک سے کہا، میرے پاس سرمایہ نہیں، ورنہ میں ڈراما (ٹیلے ویژن کے لیے) بناتا۔ اس لمحے اپنی موج میں وہاں سے گزرتے جمشید فرشوری (مرحوم) یہ سن کے ٹھٹک کے رُکے اور مجھ سے کہا، ”بہانے مت بناو، تمھیں کام کرنا ہے، تو یہ کیمرا اٹھاو اور جا کے کام کرو؛ یہیں لا کے اڈٹنگ کرو“۔ یہ جادوئی لمحہ تھا۔ میرے لیے گویا معجزاتی لمحہ۔ یہ 1998 یا 99 کا کوئی دن تھا۔

جمشید فرشوری پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن میں پروڈیوسر تھے، انھوں نے ”این ٹی ایس“ کے نام سے اپنا ادارہ بنایا ہوا تھا، جہاں سے کیمرے اور اڈٹنگ کا سامان کرائے پہ حاصل کیا جاتا تھا۔ ان کے الفاظ نے مجھے وہ توانائی دی، کہ آج تک بطور ”پروڈکشن ہاوس“ جو تھوڑا بہت کام کیا ہے، اسی توانائی کی کرامات ہیں۔

اس کے بعد کیا ہوا، یہ ایک طویل کہانی ہے؛ وہ سب سن کے آپ بور ہو جائیں گے۔ جب جمشید فرشوری نے مجھے اکسایا تھا، تب میری جیب میں شاید پانسو رُپے بھی نہیں تھے؛ وہ کہتے ہیں، ناں:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

ٹیلے ویژن پروگرام پروڈکشن کی، کہانیاں لکھیں، ہدایت کاری کی، پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ یہ سب ایسا ہی تھا، کچا پکا سا۔ سیکھتے سیکھتے کام سمجھ آنے لگا تو مشکلات بڑھتی گئیں۔ اس دوران نجی ٹیلے ویژن کے لائسینس جاری ہوئے، اور ہوتے ہوتے ان نجی چینلوں اور پروڈکشن ہاوسز نے مل کے ”مناپلی“ بنا لی۔ آج کے ٹیلے ویژن چینلوں پہ اس پروڈکشن ہاوس کا کوئی پرسان حال نہیں، جس کا بنیادی سرمایہ شوق ہے۔ آپ کسی بڑے پروڈکشن ہاوس سے منسلک ہیں تو ٹھیک، اِدھر اُدھر سے سرمایہ اکٹھا کر کے کوئی پروگرام بنا بیٹھے ہیں، وہ کتنا ہی اچھا ہے، نجی چینل کے کرتا دھرتا اسے ”رجیکٹ“ کر دیں گے۔ وہ پروڈکشن ہاوس جنھوں نے ان چینلوں کی ”ٹائم سلاٹ“ پر کرنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے، وہ خود مختار پروڈیوسر کا قتل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ کیسے؟ یہ الگ سے مضمون بنتا ہے۔

تمام ٹیلے ویژن چینلوں کے پروگرام میں یک سانیت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پروڈکشن ہاوسز چھاپے خانے بن چکے ہیں۔ اور پھر کچھ چینل اور پروڈکشن ہاوس کی تن آسانیاں ہیں۔ کسی نئے خیال پر تو سوچتے ہی نہیں، وہی فارمولا پروگرام بناتے چلے جاتے ہیں، جن کی مارکیٹنگ ڈپارٹ منٹ ڈِمانڈ کرتا ہے۔ بالفرض ایک ڈراما ہٹ ہو گیا ہے، تو سبھی چینل اس سے ملتے جلتے پروگرام بنانے لگتے ہیں؛ گیم شوز ہوں، یا ٹیلے ویژن ڈراما۔ حتا کہ نیوز چینل بھی ایک ہی طرح کے چیخم دھاڑ والے پروگرام تیار کرتے ہیں؛ ایک چینل پہ ریالٹی شو کام یاب رہا ہے تو سبھی ریالٹی شو بنانے لگتے ہیں۔ ”ہم سب اُمید سے ہیں“ پسند کیا جاتا ہے تو سب کی خواہش ہوگی، اسی طرز کے پروگرامز کی بھرمار کر دی جائے؛ یوں ناظرین جو بھی چینل لگائیں انھیں لگتا ہے، ایک ہی فارمولا ہے۔

اب ان کے لیے کیا راستہ ہے، جو شوق کے ہاتھوں مجبور ہیں؟ ویسا کام نہیں کرنا چاہتے جیسا ہو رہا ہے؟ ٹیلے ویژن پروڈکشن یا فلم میکنگ سستا شوق نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ کاغذ قلم لیں لکھنا شروع کر دیں، اور کہانی مکمل ہو جائے۔ کہیں چھپنے کے لیے بھیج دیں، اور قارئین اسے پڑھ لیں، آپ کی تسکین ہو گئی۔ یہ ٹیم ورک ہے اور ٹیم کو چلانے کے لے سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پری پروڈکشن کو چھوڑ بھی دیں تو میک اپ آرٹسٹ سے لے کر کے لوکیشن فیس، ٹرانس پورٹ، فوڈ، کیمروں کا کرایہ، کیمرا مین، اڈیٹر، ایکٹرز، اسپاٹ بوائے تک کو ”دیہاڑی“ دینا ہوتی ہے۔ بیس سال پہلے ہم چند لاکھ لگا کے، چند لاکھ میں جو ڈراما بیچ دیتے تھے، وہ اب کروڑ‌ دو کروڑ تک کی بات ہے۔ اتنا سرمایہ لگا کے چینل سے ”ریجیکشن سرٹفکیٹ“ لینے کا رِسک کون شوقین لے سکتا ہے۔

ایسا نہیں کہ کم سرمائے سے کام کرنے والوں کے لیے اب کوئی راستہ نہیں‌ رہا۔ انھیں فوری طور پہ ٹیلے ویژن چینلز کی طرف دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے۔ اپنے جیسے شوقین افراد کو تلاش کریں؛ مل جل کے کچھ ایسا بنائیں، جیسا تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیلے ویژن ڈراما، ڈاکیومینٹری، ڈاکیو ڈراما، شارٹ فلم، فیچر فلم جو وہ بنانا چاہتے ہیں۔ اپنے پروگرام نشر کرنے کے لیے یو ٹیوب اور اس طرح کی دیگر سائٹس کا انتخاب کریں۔ انگریزی سب ٹائٹل ایڈ کریں، تا کہ جہاں جہاں آپ کی زبان نہیں سمجھی جاتی، وہ سب ٹائٹل سے رہنمائی لیں۔

آنے والا دور انٹرنیٹ ورلڈ کا ہے، جہاں سیٹھوں کو مناپلی بنانے کے لیے کئی قسم کی دشواریوں کا سامنا ہے۔ دُنیا بھر ہی میں کیا، ہندُستان سے بھی ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، کہ انٹرنیٹ کا موثر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے لیے یہ نئی دُنیا ہے، ہمیں صرف یہ سیکھنا ہے کہ ہمیں اس دُنیا کا حصہ کیسے بننا ہے۔ یہاں‌ آپ کو اپنا پروگرام بیچنے کے لیے ”اسٹارز“ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ نا ہی سینسر کی وہ پابندیاں جو ہمارے یہاں ٹیلے ویژن چینل یا سینما پر عائد ہوتی ہیں۔

آپ کہیں گے کہ کم سرمائے سے پروڈکشن کیسے کی جا سکتی ہے، تو میں مشورہ دوں گا، آپ یو ٹیوب سے رہ نمائی لیجیے، کہ کیسے کیسے کہاں کہاں کس کس نے کیسا کام کیا۔ اب تو آئی فون سے فلمیں بنانے کا زمانہ ہے۔ آپ ایک بار ہمت کیجیے، شوق ہی آپ کو راہ دکھلاتا چلا جائے گا۔

آپ کو یاد ہو گا، پہلے صرف اخبار کا دور تھا، کسی اخباری ادارے میں ملازمین کی بہتات ہوتی ہے؛ اخبار نکالنے کے لیے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے۔ اب زیرو انویسٹمنٹ یا کم سرمائے سے ”ویب سائٹس“ بن چکی ہیں، جنھیں چند رضا کار مل کے چلاتے ہیں۔ یہ سائٹس بڑے بڑے روزناموں کو ٹکر دینے لگی ہیں۔ وہ کہانیاں جنھیں ٹیلے ویژن پہ نہیں پیش کیا جا سکتا، انھیں انٹرنیٹ صارفین کے لیے بنایا جا سکتا ہے۔ ڈراما، فلم، ڈاکیومینٹری، ڈاکیو ڈراما، موسیقی کے شوقینوں کو میں یہی مشورہ دیتا ہوں، کہ اپنے اظہار کے لیے اس راہ کو اپنا دیکھیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran