آزادی اِظہار کی سزا


 آزادی رائے ہر خاص و عام شہری کا حق ہے۔ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑے ، اپنے حقوق کیلئے اپنی آواز بلند کرے لیکن ہمارے معاشرے میں شاید اِس آزادی رائے کا حق محض چند مخصوص افراد کو ہی حاصل ہے اور جو لوگ اِس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں یا کسی کیلئے آواز بلند کرتے ہیں ان کا انجام ایک ہی ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ آج سے تین سال قبل 24 اپریل 2015 کو کراچی کی سبین محمود کے ساتھ بھی ہوا۔

سبین محمود ایک نہتی لڑکی تھی۔ سبین محمود کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے والد ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرتے تھے اور والدہ ایک اسکول ٹیچر تھیں ۔ وہ کراچی گرائمر اسکول میں پڑھتی تھی لیکن کئی سال تک ـاس کے والد اسے موٹرسائیکل پر چھوڑنے جاتے تھے۔ سیلف میڈ والدین کی سیلف میڈ بیٹی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک کمپیوٹر کمپنی میں ملازمت شروع کی لیکن اس پر نفرتوں کے مقابلے کی دھن سوار تھی۔

وہ اپنے شہر کو بدلنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے وطن کو اَمن کا گہوارہ بنانا چاہتی تھی لہٰذا اُس نے گوشہ امن بنانے فیصلہ کیا۔ سبین محمود نے اس گوشہ امن کا نام T2F رکھا۔ وہ اِس گوشہ امن کو صرف اور صرف مکالمے کے فروغ اور محبت کے پھیلاؤ کے لئے استعمال کرتی تھی۔ جو بات کہیں نہ کی جاسکتی وہ گوشہ امن میں کی جاسکتی تھی۔ سبین محمود دوسروں کی پریشانیوں کو محسوس کرنے میں سب سے آگے تھیں۔ وہ صرف لوگوں کی مدد نہیں کرتی تھیں ، بلکہ ہمیشہ ہر عظیم مقصد کے لیے آواز اٹھاتی تھیں ، اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے ہر سانس کے منفرد کوششیں جار ی رکھتی تھیں ۔ وہ انسانی حقوق کی ہر مہم میں سب سے آگے تھیں ۔

سڑکوں پہ نکلنے والے لوگوں میں سب سے پہلے ، اور گھر جانے والوں میں سب سے آخری ، یہی انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی سبین تھیں۔ نمائش چورنگی پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شروع سے آخر تک موجود ہوا کرتی تھیں ۔ اور جب پشاور کی مسیحی برادری پر برا وقت آیا ، تو اتوار کے روز ِگرجا گھروں کی حفاظت کے لیے بنائی گئی انسانی زنجیر میں بھی شامل تھیں۔ روایتی طور طریقوں کو کبھی نہ ماننے والی سبین ہمیشہ دوسروں سے ہٹ کر کام کرتیں ۔ سبین محمود نے کبھی بھی کسی لڑائی میں ہار نہیں مانی۔ جب “فاصلہ نہ رکھیں ، پیار ہونے دیں کہنے پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وہ تب بھی نہیں گھبرائیں”۔

سبین محمود اپنی زندگی میں خطرات سے کھیلتی اور ہمیشہ سانپوں کی بلوں میں ہاتھ ڈالتی رہتی تھیں ِ، ان کی زندگی کا اختتام بھی سانپوں سے لڑتے اور خطرات سے کھیلتے ہوئے ہی ہوا۔ اس رات انہیں T2F میں بلوچستان کے مسئلے پر گفتگو سے کوئی نہ روک سکا۔ سبین محمود کا بلوچستان کے مسئلے پر آواز اٹھانا ایسا ہی تھا جیسا سانپ کے بِل میں ہاتھ ڈالنا۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سا ئنسز (لمز) میں منسوخی کے بعد سبین محمود نے یہ نشست T2F میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہت خوش تھیں۔ دراصل یہ نشست دو گھنٹے چلنی تھی۔ پہلے گھنٹے میں وائس آف مسنگ پرسنز کے ماما قدیر ، فرزانہ بلوچ اور میر محمد علی تالپور کو بات کرنا تھیں اور سوال اور جواب کا سیشن ہونا تھا۔ اگلے گھنٹے میں سبین کا خیال تھا کہ میڈیا کو کٹہرے میں لایا جائے۔ ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ ڈھائی گھنٹے بعد بھی سوالات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ سبین یوں بھی خوش تھی کہ آخر کسی نے تو اِن کے حقوق کی جنگ لڑی۔

بس انجام پھر کیا تھا سبین محمود اس سمینار سے اپنی والدہ کے ساتھ اپنی گاڑی میں نکلیں اور پھر ایک ٹریفک سگنل پر پانچ گولیاں ۔ پیغام بڑا واضح تھا جو ایسے مسئلے اور لوگوں کے لئے آواز اٹھانے کی کوشش کرے گا راہی ء عدم ہوجائیگا۔ میں نہیں کہتا کہ سبین محمود کو کس نے مارا ؟ لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ ان کا قتل کچھ نامعلوم افراد نے کیا جو آزادی رائے سے خوفزدہ ہیں۔

ایک چالیس سالہ جوان عورت کو اس لیے قتل کردیا گیا کہ وہ آزادی تحریر و تقریر کی مبلغ تھیں۔ وہ ایک ترقی پسند معاشرہ چاہتی تھیں۔ وہ ایک ایسا معاشرہ چاہتی تھیں جہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو برابر اور مساوی حقوق ملیں۔ ترقی پسند معاشرے کے قیام کیلئے سبین محمود ایک اور شہید ہیں۔ صباد شتیاری ہو یا سبین محمود قصور محض ایک تھا وہ تھا آزادی رائے اور بلوچوں کے حقوق کی جنگ ۔ ہم شرمندہ ہیں کہ یہ قاتل نا معلوم تھے اور شاہد معلوم ہونے کے بعد بھی نہ معلوم ہی رہیں گے ۔ بطور مبلغ آزادی تحریر و تقریر مجھے آج اِس بات کا خوف ہے کہ جب میری باری آئے گی تو میری لئے کون کھڑا ہوگا کیونکہ نہ تو میں حامد میر ہوں کہ میڈیا آواز اٹھائے ، نہ سبین محمود اور صباد شتیاری کہ انسانی حقوق کی تنطیمیں میرے لیے آواز بلند کریں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس معاشرے میں آزادی اظہار کی سزا صرف چند گولیاں اور موت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).