گلگت میں مسافر کی درگت


ڈرائیور صاحب شدید جلدی میں تھے۔ سکردو روڑ کی حالت نہایت خراب ہونے کے باوجود وہ سُبک رفتاری سے گاڑی بھگارہے تھے۔ راستے میں کئی بار انہوں نے اپنی گاڑی کو مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچالیا۔ اس سُبک رفتاری میں ہمارے ہاتھ سرد اور ٹھنڈے آہنی ڈنڈوں پر نہ ٹھہر سکتے تھے۔ خرابیِ روڑ اور تیزرفتاری کی وجہ سے ٹرالی کے اندر ہماری حالت اس فٹ بال کی مانند تھی جس کو میدان میں اِس طرف سے اُس طرف اور اُس طرف سے اِس طرف اُچھالا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کے ٹائروں سے اُٹھنے والی مٹی سے چہرہ مسخ ہو رہا تھا۔ مٹی کے ذرّات سے آنکھوں میں درد کا ایک سمندر رواں تھا۔ نہ کھڑے چین آتا تھا نہ بیٹھے قرار۔

لیکن ہمیں اس بات کا احساس تھا کہ ان تمام مصائب کو جھیلنے کے بعدہی ہم اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکیں گے۔ ہمیں اس بات بھی ادراک تھا کہ پُھولوں تک پہنچنے کے لئے کانٹوں کا سامنا کرنا ضروری ہے۔

المختصر، شام کے اختتامی لمحات میں ہم گلگت شہر کی فضا میں سانس لے رہے تھے۔ ہم نے اس نرالے سفر کے اختتام پر ڈرائیور صاحب کا شکر یہ ادا کیا اور آگے چلنے ہی لگے تھے کہ ان کی طرف سے کرائے کا تقاضا سامنے آیا۔ ہم نے اس پُرآشوب سفر کے عوض ایک سو روپے فی نفر ادا کیے۔ اس صورت حال سے ہم تھوڑے سے پریشان ضرور ہوئے مگر اس بات کی خوشی بھی تھی کہ ہم اپنی منزل پر بحفاظت پہنچ چکے تھے۔

اجنبی شہر۔ اجنبی لوگ۔ شام کاوقت۔ سردی کا موسم۔ یہ اس صورتِ حال سے ہم مزید پریشان ہوگئے۔ بازاروں میں عوام کا رش آہستہ آہستہ کم ہورہا تھا۔ سردی کی وجہ سے اس موسم میں سرِشام ہی دوکانوں کے بند ہونے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ہمارے ہم سفر احمد صاحب تو کئی مرتبہ اس سے قبل بھی گلگت شہر کا رُخ کرچکے تھے۔ بڑے بھائی کی بھی یُہی حالت تھی۔ مگر ہم سرے سے انجان تھے۔

گلگت میں ہم نے سب سے پہلے اپنے رہائش کا سامان کرنا تھا۔ ہمیں کسی ایسی جگہ کی تلاش کرنی تھی جہاں ہم رات گزار سکیں۔ اس لسلے میں ہم نے مختلف ہوٹلوں کا رُخ کیا۔ ہماری بدقسمتی کہیں یا حُسنِ اتّفاق شہر کے تمام بڑے چھوٹے ہوٹلوں میں جگہیں پُر تھیں۔ کافی منت و سماجت کے بعد بھی ہم اپنے لئے کوئی ٹھکانہ ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ ان چکروں کے دوران ہم نے ایک ریسٹورنٹ سے رات کا کھانا کھالیا۔ اور آگے کا لائحہ عمل طے کرنے لگے۔

رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ بازار تیزی سے بے رونق ہورہے تھے۔ سخت اور قلفی جمادینے والی سردی میں رہائش کا انتظام کرنا ہمارے لئے مشکل ثابت ہورہا تھا۔ چونکہ اگلی صبح نو بجے ہمیں تحریری امتحان میں شریک ہونا تھا، اس لئے ایک تھکا دینے والے سفر کے بعد چند گھنٹے آرام کرنا نہاہت ضروری تھا۔ ہوٹلوں کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد ہم نے گلگت شہر کے مضافات میں مقیم رشتہ داروں کے ہاں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ ان عزیزوں میں کئی ایسے تھے جو ہمیں خوب چاہتے تھے اور ہم بن بلائے ان کے ہاں جاسکتے تھے۔ پھر بھی ہم نے کسی ایک کو متقفہ طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔

فلاں ماموں، فلاں چچا، فلاں بھائی۔ ایک لمبی چوڑی لسٹ تیار ہوگئی۔ سردی کے موسم میں رات کے اس پہر کسی کے گھر آدھمکنا شرافت تو نہیں تھی مگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ بھی نہیں تھا۔
باری باری تمام رشتہ داروں کے تجزیے ہونے لگے۔ فلاں کی بیگم پرائی ہے، فلاں کے گھر افراد کی تعداد زیادہ ہے، فلاں کا گھر دور ہے جہاں تک رسائی کے لئے ایک مہنگی ٹیکسی کرائے پر لینی پڑے گی۔ کافی غور وخوص کے بعد ایک نام کا انتخاب ہو ہی گیا۔ موصوف رشتے میں ہمارے چچا زاد لگتے ہیں۔ ان کا اسم ِ گرامی اکبر ہے اور سحاب تخلص فرماتے ہیں۔ اکبر صاحب کے نام کو شرفِ قبولیت بخشنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا خاندان ان دنوں گاؤں میں تھا اور وہ اکیلے ہی سارے گھر میں شوق فرما رہے تھے۔ لہذا ہم نے ان کے بیوی بچوں کی غیر موجودگی سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔

چونکہ احمد صاحب ہم دونوں بھائیوں سے عمر میں بڑے ہیں، لہذا اکبر صاحب سے بات کرنے کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی۔ احمد صاحب نے فون پر علیک سلیک کے بعد ہماری ناگہانی آمد کی اطلاح دی اور ساتھ ساتھ ہماری بے بسی اور بے کسی کا رونا بھی رویا۔ دوسری طرف سے بھی بات چیت ہوئی۔ چند لمحوں کی گفتگو کے بعد احمد صاحب نے فون بند کر لیا۔ ان کے چہرے سے عیاں مسرّت اس بات کی شاہد تھی کہ دوسری طرف سے جواب مثبت ہی آیا تھا۔ ہم مطمئن ہوکر اکبر صاحب کا انتظارکرنے لگے۔ تقریباً بیس منٹ بعد وہ ہمارے درمیان موجود تھے۔ ان کے ہمراہ ہمارے ایک قریبی چچا بھی تھے۔

اکبر صاحب کے حکم پر ہم تمام لوگ فوراً ان کی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد سردی کی شدّت میں قدرے کمی آئی۔ ابھی گاڑی چلی ہی تھی کہ ہمارے میزبان نے شہروں میں رہنے والے رشتہ داروں کی اہمیت اور فرائض پر ایک مفصّل تقریر ہماری سماعتوں کی نظر کی۔ اس مشکل صورت حال میں ا نہوں نے ہمیں سہارا دیا تھا لہذا ان کی بدمزہ اور بے سرو پا تقریر ہمیں فی الوقت بڑی عالمانہ اور فلسفیانہ لگی۔

کچھ دیر میں انہوں نے گاڑی ایک پٹرول پمپ پر روک دی۔ ہمیں یقین تھا کہ فرائض ِ میزبان پر دی جانے والی تقریر کے بعد پیٹرول کی قیمت وہ خود ادا کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے گاڑی روکتے ہی عجیب شان سے اپنی تمام جیبوں کی تلاشی لی اور شکست خوردہ لہجے میں گویا ہوئے‘ ایک بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ساری رقم گھر پر بھول آئے ہیں۔ ‘

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4