گلگت میں مسافر کی درگت


خیر مریل لڑکے کی مدد سے ہمیں ایک کمرہ ملا۔ ہم چار افراد تھے اور بچھانے اوڑھنے کا سامان ناکافی تھا۔ میں رفع حاجت کے لئے ٹائلٹ گیا۔ وہاں پانی ندارت۔ خاتونِ خانہ کی چیخ و پُکار کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ مہمان خانے کا ماحول مہمانوں کی طبیعت کے مطابق نہ تھا۔ چند لمحوں کی مشاورت کے بعد پھر سے بے منزل راہی بننے کا فیصلہ ہوا۔

سب سے پہلے بڑے بھائی صاحب نے موبائل فون کان سے لگایا اور کسی سے بات کرنے کے انداز میں کمرے کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کے بعد احمد صاحب نے اس طریقہ فرار کے تحت نئے ٹھکانے کو چھوڑ۔ اس نے بعد ہم بڑبڑاتے ہوئے نکل آئے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ذیشان صاحب نے بھاگ نکلنے کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا۔

جونہی ہم مرکزی گیٹ سے باہر نکلے مریل لڑکا حاضر ہوا اور ہماری بغاوت کی وجہ پوچھی۔ باقی حضرات خاموش رہے۔ ہم نے عرض کیا کہ پہلے چچا کا نمبر نہیں مل رہا تھا۔ اب ان سے رابطہ ہوچکا ہے اور وہ ہمیں لینے کے لئے آرہے ہیں۔ وہاں سے نکلنے کے بعد ہم ایک مرتبہ پھر سخت سڑکوں کی خاک چھاننے لگے۔ بڑے بھائی نے مشورہ دیا کہ ہماری اس حالت ِ زار کے ذمہ دار اکبر صاحب ہیں۔ لہذا ایک مرتبہ پھر ان سے بات کی جائے۔ دوسرے لمحے احمد صاحب نے ایک بار پھر ان سے رابطہ قائم کیا اور پھر سے شاعرانہ گالیوں کا آغاز ہوا۔

حسب ِ سابق اکبر صاحب آئے۔ اور گاڑی ایک بار پھر نامعلوم راستوں سے ہوتی ہوئی ایک نئے گیٹ کے سامنے رکی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اکبر صاحب کا سسرال تھا۔ دروازے پر دستک کی آواز سن کر سسر میاں خود تشریف لائے۔ اول ً تو انہوں نے ہمیں ڈاکووں کا ایک گینگ سمجھ کر اپنے ہاتھوں کو ہوا میں بلند کیا مگر دوسرے لمحے اکبر صاحب کو پہچان کر ان کو آڑے ہاتھوں لیا۔
کچھ دیر کی ڈانٹ نصیحت کے بعد ہمیں ایک عالی شان مہمان خانے میں پہنچایا گیا۔ یوں صبح کاذب کے ساتھ ہی ہماری شب ِ الم کا بھی اختتام ہوگیا۔

اس بات کا ذکر کرتے چلیں کہ ہمیں آج تک معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ اکبر صاحب اس دن ہمیں اپنے گھر لے جانے سے اتنے گریزاں کیوں تھے۔ اور ہم نے مارے غصے کے ان اس موضوع پر کبھی بات بھی نہیں کی۔ اگلے ان امتحان میں کیا ہوا۔ اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4