عمران خان پاکستان کے میئر ہونگے


انتخابی نتائج کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور جو کچھ پولنگ کے آخری 2 گھنٹوں اور بعد میں روا رکھا گیا تھا اس کے مطابق ہی طاقتوروں کے حسب منشاء نتائج سامنے آ رہے تھے اور مجھے کسی مغربی مفکر کا یہ قول یاد آ رہا تھا کہ ” فیصلہ وہ نہیں کرتے جو ووٹ ڈالتے ہیں بلکہ فیصلہ وہ کرتے ہیں جو ووٹ گنتے ہیں“۔ ان انتخابات کا عوامی رائے سے کتنا تعلق ہے اس کو سمجھنے کے لئے بیان کرتا چلوں کہ مرزا عظیم بیگ چغتائی نے مسز کڑھلے کے عنوان سے ایک ناول تحریر کیا تھا۔ اس کے دیباچے میں انہوں نے بیان کیا کہ ” ملکہ وکٹوریا کی خدمت میں مارک ٹوین کو شرف باریابی حاصل ہوا تو انہوں نے ملکہ موصوفہ سے ان دیرینہ تعلقات کا اظہار کیا کہ جو خاندان شاہی سے حضرت مارک ٹوین کو حاصل تھے۔ حضرت معظمہ جب ان تعلقات سے لا علمی کا اظہار کر کے دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ ایک دفعہ حضرت مارک ٹوئن نے پرنس آف ویلز ایڈورڈ ہفتم کو مجمع کی کثرت کے سبب سے ایک درخت پر چڑھ کر دیکھا تھا۔ جب وہ امریکہ کے کسی شہر میں دورہ فرما رہے تھے“۔

بس انتخابات کے نتائج عوامی رائے سے اتنا ہی تعلق رکھتے ہیں جتنے دیرینہ تعلقات مارک ٹوین کے برطانوی شاہی خاندان سے تھے۔ نتائج کی آمدد کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ رخت سفر بجانب راولپنڈی و اسلام آباد باندھا اور صبح کے وقت وہاں جا پہنچے۔ اڈیالہ جیل میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور حنیف عباسی سے ملاقات ہوئی۔ میں کبھی پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ میں جب کبھی بھی میاں نوازشریف سے ملا تو میں نے ان سے سعودی عرب میں ہونے والی جلا وطنی کے دوران ملاقاتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی شخصیت پر نظر ڈالی۔

انتخابات میں جو کچھ دھونس روا رکھی گئی تھی اس کو گزرے ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے۔ اچھے بھلے ماحول میں رہنے والے انسان پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں یہ تو جیل ہے۔ مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان کی شخصیت پر ان جاں گسل حالات کے باوجود کوئی پریشانی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ وہ اپنی طبعیت کے مطابق بڑی خوشدلی سے ملے اور انہوں نے گفتگو بھی اسی انداز میں کی کہ جیسے وہ کرتے ہیں۔ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والا شخص یہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ جب وہ نادیدہ طاقت سے عوامی حق حاکمیت حاصل کرنے کے لئے ٹکرا جائے گا تو اس کو کس قسم کے حالات سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس لئے ان کے لئے گزشتہ 28 جولائی 2017؁ء سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچھنبے کی بات نہیں اور وہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ ۔ اس میں ستاروں سے مراد وہی ہے جو قرآن پاک کی مقدس آیات کو اپنی خودساختہ کامیابی کے لئے ٹویٹ کرتے ہیں اور جواب میں لوگ پلٹن میدان کی تصاویر لگا دیتے ہیں۔ کیپٹن صفدر سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اسلامی قوانین پر جلد یا بدیر ہاتھ ڈالنے کا منصوبہ رکھتے ہیں لیکن کیپٹن صفدر کٹ مرے گا ان کو ایسا نہیں کرنے دیگا۔

اڈیالہ جیل کے بعد منزل اسلام آباد تھی جہاں پر انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لئے موجود غیر ملکی مبصرین اور سفارتکاروں سے ملاقاتیں تھیں۔ ایک مبصر نے مجھ سے سوال کیا کہ قبل از انتخاب، انتخاب کے دن اور بعد از انتخاب یہ نا انصافی خلائی مخلوق نے کیوں کروائی۔ پارلیمنٹ تو ابھی وجود میں آ گئی تو انہوں نے حاصل کیا کیا۔ میں نے کہا کہ اگر یہ اسمبلیاں چل گئیں کہ جس کے آگے ڈھیروں سوالیہ نشان ہیں تو انہوں نے بہت کچھ حاصل کر لیا۔ نوازشریف سے وہ خوفزدہ اس لئے تھے کہ یہ سینٹ کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گا اور پھر سول بالا دستی کے لئے وہ سب کچھ آئینی ترمیم سے کر گزرے گا جو ملک کی ضرورت ہے۔ مگر اب عمران خان کو سوائے اسمبلی سے بجٹ منظور کرانے کے اور کوئی قانون بھی منظور نہیں کروا سکیں گے۔ اور عملاً صرف پاکستان کے میئر ہوں گے۔ کیونکہ اس وقت سینٹ میں ان کے غالباً 12 اراکین ہیں سات آٹھ مزید ہم خیال شامل کر لے تو یہ تعداد 20 ہو جائے گی۔ جبکہ سینٹ کے اراکین کی کل تعداد 104 ہے۔

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور اے این پی کی بھی صرف حزب اختلاف مان بھی جائے تو عمران خان کو قومی اسمبلی میں بہت تھوڑی اکثریت حاصل ہو گی۔ اگر وہ کوئی قانون قومی اسمبلی سے منظور بھی کروا لینگے تو سینٹ سے اس کی منظوری نا ممکن ہوگی۔ ایسی صورت میں اگر وہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلا کر قانون سازی کرنا چاہیں گے تو کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ سینٹ میں تحریک انصاف کی نشستیں اتنی کم ہیں کہ قومی اسمبلی میں حاصل کردہ معمولی برتری اس کمی کو پورا نہیں کر سکے گی۔ اور یہ کیفیت 2021؁ء کے سینٹ کے انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گی کیونکہ اس میں بھی تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال سے سینٹ میں 10، بارہ ہی نشستیں مزید بڑھیں گے۔ لہٰذا تحریک انصاف صرف سال کے سال بجٹ ہی منظور کروائے گی کہ جو ایک مجبوری ہے۔

اگر عمران کان نے چوں، چراں کی کوشش مالکوں کے سامنے کی تو ان کے سامنے 1990؁ء کا سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ موجود ہے کہ جس میں اسمبلی اور حکومت کی برخاستگی کی یہ جائز وجہ بیان کی گئی تھی کہ اسمبلی قانون سازی اس حد تک نہیں کر سکی کہ جتنی عدالت کے خیال میں کرنی چاہیے تھی۔ سر کے علاوہ بات کرنے کی جرات کی تو عدالتی فیصلے کی نظیر موجود ہے۔ بس ایک پٹیشن اور اسمبلی نا اہل۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ خلائی مخلوق کو پارلیمنٹ کی نام نہاد موجودگی پر اعتراض نہیں اور نہ ہی وزیر اعظم کے عہدے پر۔ بس وہ پارلیمنٹ کو بلدیاتی ادارہ اور وزیر اعظم کو میئر بنا ڈالنا چاہتے ہیں اور جب تک یہ اسمبلی چلے گی حقیقت بھی یہی ہو گی۔ پارلیمنٹ کو بلدیاتی ادارہ بننے سے بچانے کے لئے حلف نہ لینا زیادہ بہتر فیصلہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).