دیامر سانحہ اور اجتماعی ذمہ داری


میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع دیامر میں نامعلوم شرپسندوں نے ایک درجن سے زائد تعلیمی اداروں پر حملہ کیا ہے جن میں بعض سکولوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی ہے اور بعض سکولوں کو بارودی مواد سے اڑادیا گیا ہے۔ واقعہ جمعرات اور جمعے کے درمیانی شب کو پیش آیا ہے۔ اس تخریبی کارروائی میں 11گرلز سکولوں اور 2 زیر تعمیر پبلک سکولز(آرمی کے ماتحت سکول) کو بیک وقت نشانہ بنایا ہے اور عمارت کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ بھی کردی ہے۔ ان سکولوں میں 7سکول تحصیل داریل میں، تین سکول تحصیل تانگیر میں جبکہ تین سکول تحصیل چلاس کے شامل ہیں۔

تحصیل تانگیر کی زیر تعمیر پبلک سکول میں گھسنے کی کوشش پر وہاں موجود سوال خان نامی چوکیدار نے فائرنگ کھول دی اور سکول کی عمارت کو آگ لگانے سے بچانے میں کامیاب ہوگیا اس فائرنگ کے تبادلے میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ شرپسندوں میں سے کوئی زخمی بھی ہوا ہے۔ پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شرپسندوں نے ’معمولی‘کارروائی کی ہے تاہم وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان، عمران خان، آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان، چیف سیکریٹری، فورس کمانڈر سمیت تمام ذمہ دار حلقوں نے اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور فی الفور تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

ضلع دیامر گلگت بلتستان کا چہرہ ہے۔ گلگت بلتستان اپنے ون یونٹ کے سفر میں تمام اضلاع کے ہمراہ ترقی کے سفر بلکہ ارتقائی مراحل سے گزررہا ہے۔ جی بی کا ہر فرد جہاں دیگر ترقی یافتہ اضلاع کے ’اچھی‘چیزوں کا سانجھی ہے وہی پر ایسے غمزدہ کرنے والے واقعات اور سانحات پر بھی اجتماعی سطح پر غمزدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ضلع دیامر گلگت بلتستان کا داخلی دروازہ ہے اور اس ضلع کی صورتحال پورے گلگت بلتستان کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس ضلع میں امن کی صورتحال گویا پورے گلگت بلتستان کی ضرورت ہے۔ دیامر کا یہ واقعہ انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس واقعہ کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچاجاسکتا ہے کہ دیامر میں شرپسند عناصر اب بھی موجود ہیں۔

جس طریقے سے راکھ میں چنگاری موجود ہوتی ہے اور وہ دوبارہ آگ بھڑکانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ دیامر میں اس سے قبل بھی غیر معمولی قسم کے وارداتیں ہوتی رہی ہیں لیکن ارباب اختیار اور حساس اداروں کا اس صورتحال پر خاموشی کی پالیسی اپنا لینا یقینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ممکن ہے کہ حساس ادارے اپنے انداز میں پلان بناتے ہوں گے تاہم اب تک دیامر کے پس منظر میں ایسی پالیسی سودمند نظر نہیں آئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی ایس سی او کے دو ملازمین کو حبس بے جا میں کئی روز تک رکھا گیا ہے اور نوبت آپریشن کرنے تک کی آگئی۔ گو کہ وہ معاملہ خو ش اسلوبی سے انجام تک پہنچ گیا لیکن ایسے عناصر کی موجودگی کا پتہ بھی دے گیا۔ حکومت اور حساس اداروں کو اسی وقت اس صورتحال سے آگاہ رہتے ہوئے مستقبل میں کسی بھی قسم کے تخریبی یا ناخوشگوار واقعہ کے لئے طویل پلان بنانے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا جس کا لازماً افسوس ہوگا۔

ضلع دیامر کی تعلیمی پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے بالخصوص خواتین کی تعلیم اب بھی کئی مقامات پر شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیامر کے سکولوں کو جلانے کا یہ واقعہ بھی اسی سوچ کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اب ضلع دیامر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ جو صورتحال دیامر میں ہے ایسی صورتحال میں کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ ضلع دیامر کی یہ صورتحال سب سے پہلے عوام دیامر کے لئے نقصاندہ ہے اور ان کے مستقبل کا سوال ہے۔ معاشروں کی بہتری کے لئے جب تک کڑوی دوا نہیں پی لی جاتی ہے تب تک معاشروں کی بہتری اور ترقی کا عمل ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اور معاشرے کے لئے سب سے کڑوی دوا ’سوچ ‘ ہوتی ہے معاشرے کے ہر ذمہ دار اور ہر فرد کو اپنی سوچ کا ازسرنوجائزہ لینا ہوتا ہے کہ ان کی اس سوچ سے معاشرے میں بہتری ممکن ہے یا معاشرے کو پسماندہ رکھنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ ضلع دیامر کا معاشرہ متزلزل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

چونکہ اردگرد اور دنیا بھر کی صورتحال میں تمام چیزیں بدل رہی ہیں۔ یہ ایک یقینی بات ہے کہ عالمگیریت کے عالمی اثرات جنہیں گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے سے کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں ہے دنیا بھر میں رونما ہونے والے حالات نئے ادوار کی پیشنگوئی کررہے ہیںدیامر اس وقت جدید دور میں داخل ہونے کے دروازے پر ہے مگر اس صورتحال کو سمجھ نہیں پارہا ہے کہ وہ اپنے قدیم روایات اور رسومات کو لے کر نئے دور میں کیسے داخل ہوجائے۔ معاشرے کو استحکام کی طرف لے جانے میں گلگت بلتستان کے ہر دفرد، ہر ذمہ دار اور ہر ادارے کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس ذمہ داری سے قبل دیامر کی عوام بالخصوص نوجوانوں کو دو راستوں میں سے ایک راستے کو انتخاب کرنا ہوگا۔

اب دیامر کے ہر فرد کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا وہ علم دوستی کی سوچ بالخصوص خواتین کی مضبوطی اور خواتین کی تعلیم کی سوچ کو فروغ دیںیا دوسرا راستہ یقینا وہی ہے جس کی بنیاد پر 13سکولوں پر آگ لگادی گئی ہے میری نظر میں تیسرا راستہ ممکن نہیں ہے۔ ضلع دیامر میں تعلیم کی سوچ کو آگے لے جانے میں جہاں نوجوانوں پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے وہی پر سب سے پہلے اہل علم کی اپنی ذمہ داریاں سب سے زیادہ ہے۔ دیامر میں آج بھی سب سے معتبر حلقہ ’علماء‘ کا سمجھا جاتا ہے اور علماءکی گفتگو کو ہمیشہ اہمیت ملتی ہے لہٰذا سب سے پہلے علماءاپنی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے وعظ و نصیحت کے ذریعے قوم کی رہنمائی کریں اور اس سوچ کے خلاف لڑنے کا حوصلہ عطا کرے۔

دوسرے نمبر پر دیامر کا سیاسی حلقہ ہے۔ دیامر کے موجودہ ممبران اسمبلی خود کہتے ہیں کہ دیامر میں ترقیاتی کام صفر ہے اسمبلی میں کسی دیامر کے نمائندے کی کارکردگی ’غیر معمولی ‘ نہیں رہی ہے۔ جب عوامی کام بھی نہیں ہوتا ہے اور قانون سازی میں بھی حصہ نہیں ہے تو ممبران اسمبلی کا تیسرا کام کیا ہے؟ دیامر کی تجربہ کار سیاست پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کم از کم اپنے ضلع کے اندر تعمیر و ترقی کی سوچ میں اپنا حصہ ڈالے۔ اس کے علاوہ نوجوانوںپر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ تخریبی کارروائیوں کا بنیادی مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کو بزور ہتھیار اپنی سوچ کے مطابق چلنے پر مجبور کیا جائے۔

چوتھی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ ریاستی فیصلے معاشرے کی تشکیل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ریاست اب دیامر میں تعمیر و ترقی کی سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے کم از کم بیچ بوئے اور دیامر کو پالیسیوں میں خصوصی حیثیت دیں۔ اب تک ان تمام حلقوں کی جانب سے اس سوچ کے خلاف لڑنے کے لئے اقدامات ’ناکافی ‘ ہیں۔ تاہم یہ بھی معمولی بات نہیں ہے کہ واقعہ کے فوراً بعد دیامر کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کرکے اس واقعہ کی مذمت کی گئی اور واقعہ میں ملوث کرداروں اور عناصر کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کردیا گیا۔

جیسا کہ اوپر کے سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان دیامر کو پیچھے چھوڑ کر کبھی آگے نہیں جاسکتا ہے۔ اور تخریب کاری کی اس سوچ سے صرف دیامر نے نہیں لڑنا ہے بلکہ پورے علاقے نے لڑنا ہے۔ گلگت بلتستان کے ہر فرد پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تخریب کاری کی اس سوچ کے خلاف لڑنے میں آگے بڑھیں۔ مجھے امید تھی کہ گلگت کے مختلف علاقوں میں بھی اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس مخصوص سوچ کی مذمت کی جائے گی لیکن ہر طرف خاموشی چھائی رہی اور حکومتی سطح پر صرف اخباری بیانات جاری کرنے پر اکتفا کیا گیا۔
مجھے آج سانحہ پشاور کے بعد’جاری‘کردہ ترانہ یاد آرہا ہے جو اس سوچ کو للکار رہا ہے
میں ایسے قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).