عمران خان کی ملیحہ لودھی سے ملاقات اور نریندر مودی


پیر کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ ڈالنے کے بعد اپنے بستر پر رکھے اخباروں کا بنڈل کھولا تو ایک اُردو روزنامے کے صفحہ اوّل پر نمایاں طور پر چھپی ایک تصویر پر نظر پڑگئی۔ چند روز بعد وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے عمران خان صاحب اس تصویر میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کے ساتھ اپنے بنی گالا والے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ لگائی چار کالمی خبر میں اطلاع یہ دی گئی تھی کہ ہمارے متوقع وزیر اعظم اس امر پر بہت خفا ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے حکومتِ پاکستان کی جانب سے مناسب اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس روئیے کو بدلنا ہوگا تاکہ مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کو یقینی بنایا جا سکے۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کو نواز حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب متعین کیا تھا۔ پیر کی صبح چھپی خبر کو پہلی بار پڑھ کر مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ خان صاحب ڈاکٹر صاحبہ کی اقوام متحدہ میں کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ چوں کہ وہ فارن آفس کی باقاعدہ ملازم نہیں۔

ان کے عہدے کا تعین سیاسی حکومت نے کیا تھا لہذا اس حکومت کے جانے کے بعد معمول کے مطابق ڈاکٹر صاحبہ کو اس منصب سے فارغ کیا جارہا ہے بعد ازاں لیکن یہ خیال آیا کہ کسی بھی نئی حکومت کے آنے کے فوری بعد گزشتہ حکومت کے لگائے نان کیریئر سفارت کار خودبخود اپنے منصب سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ خاں صاحب کو خاص طورپر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو اپنے گھر بلاکر انھیں پاکستان کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کے منصب سے فراغت کی اطلاع دینا ضروری نہیں تھا۔

میری خوش بختی کہ ایک انگریزی اخبار میں بھی اس ملاقات کے بارے میں خبر چھپی تھی۔ اس خبر کا ذریعہ نہیں بتایا گیا۔ اُردو اور انگریزی اخبارات میں چھپی خبروں کا متن مگر ایک جیسا تھا۔ اس حقیقت نے مجھے یہ طے کرنے پر مجبور کیا کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کی عمران خان صاحب سے ملاقات والی خبر اور تصویر بنی گالا میں موجود تحریک انصاف کے میڈیا آفس نے جاری کی ہے۔

مذکورہ خبر لکھنے والا شخص مگر صحافتی زبان سے قطعاًََ واقف نہیں تھا۔ غالباًََ اسے یہ بتایا گیا ہوگا کہ خاں صاحب نے ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ملاقات میں نواز حکومت کے مسئلہ کشمیر کے بارے میں سرد رویے پر خفگی کا اظہار کیا ہے یہ خبر لکھتے ہوئے بنی گالا میں بیٹھے کسی منشی نے لیکن یہ بھی بتادیا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہ رکھنے کے لئے موثر اقدامات اٹھائیں۔

انگریزی اور اُردو اخبارات میں چھپی ان خبروں کو غور سے پڑھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمارے متوقع وزیر اعظم نے ڈاکٹر صاحبہ کو خاص طورپر بنی گالا طلب کیا تھا۔ شاید یہ حکم دینے کہ وہ بدستور نیویارک میں پاکستان کی اقوام متحدہ کے لیے مستقل مندوب کی حیثیت میں کام جاری رکھیں۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی شروع ہونا ہے۔ نئی دلی میں افواہیں گردش میں ہیں کہ شاید بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اس اجلاس میں شریک ہونا چاہ رہے ہیں۔

مودی کی نیویارک میں موجودگی کی وجہ سے پاکستان کے وزیراعظم کو بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے افتتاحی ایام میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہیے۔ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے چند ہی ہفتے بعد عمران خان صاحب کا دورہ نیویارک ان کا اہم ترین غیر ملکی دورہ بھی ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی سربراہان ستمبر والے اجلاس سے خطاب کے ذریعے اپنا موقف دنیا کے رو برو لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے ویسے بھی ہمیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی مسلسل ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

ماضی کی حکومتوں سے ہمیں یہ شکوہ رہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے کماحقہ طریقے سے پیش نہیں کرپائیں۔ نواز حکومت کی تیسری حکومت اس ضمن میں خصوصی طورپر تنقید کا نشانہ بنی رہی۔ کئی محبانِ وطن کو یقین کی حد تک یہ شبہ بھی رہا کہ چوں کہ سابق وزیر اعظم ”مودی کے یار“ بن چکے ہیں اس لئے مسئلہ کشمیر کی بابت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

اندر کی خبر جاننے والے کئی صحافیوں کا بلکہ یہ اصرار بھی رہا کہ نواز شریف محض ”مودی کا یار“ ہی نہیں ایک بہت بڑے بھارتی صنعت کار سجن جندل کے مبینہ طور پر تجارتی شراکت داربھی ہیں۔ جندل شریف خاندان کی طرح لوہے کے کاروبار سے وابستہ ہے۔

افواہ یہ بھی چلی تھی کہ وہ افغانستان سے خام لوہا نکالنے کے لئے کچھ کانیں خریدنے کے چکر میں تھا۔ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں انہیں اُکساتا رہا کہ افغانستان سے نکالے خام لوہے کو اس کی بھارت میں قائم فاﺅنڈریوں تک بآسانی پہنچانے کے لیے پاکستان اپنے ریل کے نظام کو افغانستان تک پھیلا دے۔

وزیر اعظم کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ شاید اس میں انھوں نے اپنے کاروبار کا فائدہ بھی دیکھا ہوگا۔ قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والے مگر اس گیم کو بھانپ گئے۔ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ نواز شریف بھی پاناما کی وجہ سے فارغ ہو گئے۔ کسی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نااہل ہوجانے کے بعد اب اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

عمران خان صاحب کا کوئی ذاتی کاروبار ہی نہیں لہذا معاشی مفادات سے بالا تر ہوکر سوچتے ہیں۔ کرشمہ ساز شخصیت ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس سال ستمبر میں انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر کشمیر کے حقائق کو بیان کیا تو عالمی برادری اس ضمن میں اپنی بے حسی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔

بنی گالا سے جاری ہوئی پریس ریلیز نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ خان صاحب نے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو نہ صرف اپنے منصب پر برقرار رہنے بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آیندہ ماہ ہونے واے اجلاس کے لیے بھرپور تیاری کا حکم دیا ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کے ذریعے عمران خان صاحب عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کی بابت ٹھوس اقدامات اٹھانے پر قائل کرنے کو بے تاب ہیں۔

میری شدید خواہش ہے کہ حقیقت ویسی ہی ہو جیسے میں سوچ رہا ہوں۔ اس حقیقت کا مگر بنی گالا سے جاری شدہ خبر اور تصویر میں اظہار نہیں ہوا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی سفارت کار متعین ہونے سے قبل ایک جید صحافی تھیں۔ ایک نہیں دو انگریزی اخبارات کی مدیر بھی رہیں۔ ایک اخبار میں مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کو ان کی ادارت میں کام کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ بہتر ہوتا اگر مذکورہ ملاقات کی خبر ڈاکٹر صاحبہ ہی سے لکھوا دی جاتی تاکہ مجھ ایسے کم علم اور بے وسیلہ صحافی ان کی پاکستان کے متوقع وزیر اعظم سے ہوئی ملاقات کے بارے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے گریز پر مجبور ہو جاتے۔

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).