’’ڈارک ہارس‘‘ محمود خاں


سیاست کھیل ہی سمجھوتوں کا ہے اور یہ کرکٹ نہیں جہاں کپتان کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے کھلاڑی کو جس طرح چاہے استعمال کرے۔ عمران خان صاحب کو خیبرپختونخواہ اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود پرویز خٹک کی ضد کا احترام کرنا پڑا ہے۔ اپنے چہیتے عاطف خان کو صوبائی وزیر اعلیٰ نامزد نہ کرپائے۔ سوات کے محمود خان Dark Horseہوتے ہوئے بازی لے گئے۔

محمود خان کی نامزدگی کا اعلان مگر ’’میری تعمیر میں مضمر ہے…‘‘ والی خرابی کے ساتھ ہوا ہے۔ ان کا نام دیتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم اقتدار سنبھالنے کے بعد تین ماہ تک ان کی نگاہ میں ہوں گے۔

سرکاری ملازموں کو مستقل تقرری کا پروانہ تھمانے سے قبل عموماََ 3ماہ تک Probationپر رکھا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اب خیبرپختونخواہ کے منتخب شدہ وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ کے ساتھ ہوگا۔ خاں صاحب کو مطمئن نہ کر پائے تو چھٹی کرادی جائے گی۔ ان کی جگہ نئی ٹیم کو لانچ کیا جائے گا۔

تین مہینے کی Probationوالے اعلان کی وجہ سے محمود خان کی نامزدگی سے ناخوش ہوئے اراکین صوبائی اسمبلی کا کام آسان ہوگیا ہے۔ وہ روایتی مکاری اور ہوشیاری سے انہیں ناکام دکھانے کی کوشش کریں گے۔ جوڑ توڑ اور دھڑے بندی کا ایسا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو قیامِ پاکستان کے فوری بعد پنجاب اسمبلی میں ممتاز دولتانہ اور افتخار ممدوٹ کے دھڑوں کے مابین اس حدتک بڑھا کہ قائد اعظم بھی اسے روکنے میں خود کو بے بس محسوس کرتے پائے گئے۔

ان کی رحلت کے بعد لیاقت علی خان بھی اس ضمن میں محض تلملاتے ہی رہے۔ وہ قتل کردئیے گئے تو خواجہ ناظم الدین وزارتِ عظمیٰ پرفائز ہوئے۔ انہیں ناکام دکھانے کو پنجاب میں مذہبی بنیادوں پر ایک تحریک چلی۔ اس تحریک پر قابو پانے کے لئے پنجاب میں مارشل لاء لگانا پڑا۔

جنرل ا عظم نے امن بحال کیا تو پاکستانیوں کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ منظم اور منصفانہ حکمرانی فقط فوج ہی فراہم کرسکتی ہے۔ یہ سیاست دانوں کے بس کی بات نہیں۔ Standards Setہوگئے۔ بہت کچھ طے ہوگیا۔ خان صاحب نے مگر ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کاوعدہ کیا تھا۔

گزشتہ کئی برسوں سے تحریک انصاف کے رہنما نواز شریف کی ’’بادشاہی‘‘ کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ انہیں سابقہ حکمران جماعت کے کئی سرکردہ رہنمائوں سے یہ شکوہ رہا کہ وہ رائے ونڈ سے آئے ہر حکم کے آگے بلاچوں وچرا سرجھکادیتے ہیں۔ غلاموں کی طرح پارٹی سربراہ کے تابعدار بن چکے ہیں۔

عمران خان صاحب کے پاس تحریک انصاف کو درباری رویوں سے بچانے کا سنہرہ موقعہ میسر تھا۔ نئے پاکستان میں اپنی سیاسی جماعت کو ایک حقیقی جمہوری جماعت ثابت کرنے کے لئے وہ خیبرپختونخواہ اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے لوگوں کا اجلاس بلاتے۔

ان سب سے یہ درخواست کی جاتی کہ وہ ایک سادہ کاغذ پر خاموشی سے اس شخص کا نام اور چند خوبیاں بیان کردیں جنہیں وہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو دو تین نام اس صورت میں ابھر کر ان کے سامنے آتے ان کا ذکر کئے بغیر وہ اس فہرست میں سے اس شخص کا انتخاب کرسکتے تھے جو ان کی دانست میں اس عہدے کے لئے بہت مناسب ہوتا۔

خان صاحب نے خیبرپختونخواہ اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تحریک انصاف کے اراکین کو مگر یہ اختیار نہ بخشا۔ وزارتِ اعلیٰ کے کم از کم چار امیدوار اپنے تئیں تخت اور تختہ والی لابنگ میں مصروف رہے۔ میری عمران خان صاحب کے دربار تک کوئی رسائی نہیں۔

اس کے باوجود کم از کم دو امیدواروں کے حامیوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا۔ اس خواہش کے ساتھ کہ میں ان کے چہیتے افراد کی خوبیاں اس کالم یا اپنے ٹی وی شو میں بیان کروں۔

تحریک انصاف بنیادی طورپر ٹویٹر اور فیس بک پر ضرورت سے زیادہ متحرک افراد کی جماعت بھی ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا گروہ میں سب سے مقبول مردان کے عاطف خان نظر آئے۔ آخری دنوں میں تیمور جھگڑا کا ذکر بھی چلا۔خیبرپختونخواہ کی سیاست سے آشنا چند صحافیوں نے مگر محمود خان کا نام دیا۔ بنیادی طور پر یہ صاحب پرویز خٹک کے علاوہ عمران خان کے پسندیدہ مراد سعید کا مشترکہ انتخاب تھے۔ خٹک صاحب کا کام آسان ہوگیا۔

عاطف خان کا پتہ کٹ گیا اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ عمران خان کو سمجھوتے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ وہ پرویز خٹک جیسے خرانٹ سیاسی کھلاڑی کے ساتھ وہ رویہ اختیار نہیں کرسکتے جو کسی زمانے میں انہوں نے اپنے ایک کزن ماجدخان کو کرکٹ کے کھیل سے نکالنے کے لئے استعمال کیا تھا۔

عمران خان کے نامزد کردہ محمود خان کے لئے میں اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتا کہ ان کا تعلق سوات سے ہے۔ان کے بارے میں کوئی رائے دینے کا لہذا مجھے کوئی حق نہیں۔ اسلام آباد میں بیٹھے بلکہ ان کے تقرر کے حق میں فوری بات یہ نظر آئی کہ ان کا تعلق سوات سے ہے۔ غالباََ اس خطے سے اب تک کوئی شخص خیبر پختونخواہ کا وزیر اعلیٰ نہیں رہا۔

یہ عہدہ عموماََ وادیٔ پشاور، جس میں چارسدہ، مردان اور نوشہرہ جیسے اضلاع شامل ہیں، کے کسی نامی گرامی خان گھرانے سے تعلق رکھنے والے شخص کے لئے مختص سمجھا جاتا رہا ہے۔

ہزارہ کے خان قیوم نے اس روایت کو للکارا تھا۔ چارسدہ کے اتمان زئی والوں کو زچ کیا۔ 1970کے انتخابات کے بعد چارسدہ کے ولی خان نے لیکن کمال مہارت سے ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا مفتی محمود کو یہ منصب بخشا۔ پیپلز پارٹی نے مگر چارسدہ سے شیرپائو خاندان کی سرپرستی کی۔

نوشہرہ سے پیر پیائی کے نصیر اللہ بابر کو گلے لگالیا۔ 90کی دہائی میں نواز شریف نے اے این پی کے ساتھ اتحاد کے ذریعے ہزارہ کے ’’احساس محرومی‘‘ کو پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب عباسی کی تقرری سے دور کرنا چاہا۔ عمران خان کی پسند نوشہرہ کے پرویز خٹک ہوئے جو ایچی سن کالج سے ان کے ذاتی دوست بھی ہیں۔

سوات بلکہ مالاکنڈ ڈویژن کے محمود خان اسی تناظر میں نئی اور شاید خوش گوار روایت کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔’’ملا ریڈیو‘‘ نے سوات کا جو حشر کیا۔ ملالہ یوسف زئی پر جو قیامت گزری وہ سب یاد رکھیں تو محمود خان کا انتخاب دل کو خوش کرتا ہے۔ جدید جمہوری نظام کو امید بھرا دکھانے کے لئے ایک ٹھوس پیش قدمی۔
سیاست میں محض علامتوں سے مگر کام نہیں چلتا۔

خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کو ’’حجرے‘‘ والے خانوں سے بناکر رکھنا ضروری ہے۔ اس کے لئے جوڑ توڑکی ایک مخصوص Skillدرکار ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ محمود خان اس ہنر سے مالا مال ہیں یا نہیں۔ وہ گزشتہ صوبائی حکومت میں وزیر کھیل رہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں ان کا خاص ذکر بھی نہیں ہوا۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا مجھے ہرگز علم نہیں۔

حجروں والے خانوں کو سنبھالنے کی مہارت اگرچہ مجھے ان میں نظر نہیں آرہی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ کئی دہائیوں سے ’’خودمختار‘‘ ٹھہرائے قبائلی علاقے اب خیبرپختونخواہ کا باقاعدہ حصہ ہوں گے۔ محمود خان کو بحیثیت وزیر اعلیٰ ان علاقوں کو Mainstream کرنا ہے۔

برطانوی استعمار کے جہاندیدہ افسروں نے بھی یہ ذمہ اپنے سر اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ قبائل کو ’’خود مختاری‘‘ دینے ہی میں عافیت محسوس کی تھی۔ دیکھنا ہوگا محمود خان اس ضمن میں کیا جلوہ دکھاپائیں گے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).