غرناطہ کا مدرسہ اور دکھ کے گھاو



چودھویں صدی کے آغازمیں غرناطہ کےحکمران یوسف اول نےغرناطہ کی جامع مسجد کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے کی تعمیرکا حکم دیا جسے مدرسہ کے نام سے آج بھی جانا جاتا ہے، گوغرناطہ کی جامع مسجد کومسمارکرکے وہاں چرچ بنادیا گیا ہے۔ موجودہ تصور سے برعکس یہ مدرسہ مذہبی اور دنیاوی دونوں تعلیم دیتا تھا، یہاں مذہب، قانون، منطق، طب، ادب، فلکیات اور ریاضی پڑھائی جاتی تھی۔

یہ ایک شاندارعمارت تھی جس کا سامنے کا رخ سفید سنگ مرمرسے بنا تھا۔ اس سنگ مرمرکے ٹکڑے آج بھی غرناطہ شہرکے آثارِ قدیمہ کےعجائب گھر میں رکھے ہیں۔ عجائب گھر میں رکھے ان ٹکڑوں میں سنگِ بنیاد بھی ہے، جس پرلکھا ہے کہ یہ عمارت محرم، 750 ہجری یعنی مارچ یا اپریل 1349 عیسوی میں قائم کی گئی۔ کہا جاتا ہےکہ یہ مدرسہ مسلم سپین میں سب سے پرانا تھا اورموجودہ جگہ سے قبل غرناطہ میں شاہی املاک میں قائم تھا۔ اُس پرانی جگہ کاعلم نہیں ہوسکا۔ اس خیال کی وجہ یہ ہےکہ بغداد کا مدرسہ نظامیہ سنہ 1066 عیسوی میں قائم کیا گیا تھا اور اندلس میں مسلمان حکمرانی 711 عیسوی میں قائم ہوئی سو یہ لازمی خیال کیا جاسکتا ہے کہ مدرسے کا قیام 1349 عیسوی سے کہیں پہلے ہوگا۔

عمارت کو شاعری اوراقوال سے مزین کیا گیا تھا جو اُس دورکے ہنرمندوں اورخطاطی کی مہارت کا آئینہ دار ہے۔ ان میں سے ایک عربی عبارت جو بچ گئی ہےاس کا ترجمہ کچھ یو ں ہے، “اگر آپ کی روح جستجو کی چاہ رکھتی ہے اورلاعلمی کے اندھیروں سے نکلنا چاہتی ہے، تو یہ جگہ ہے جو علم اورعزت کی آبیاری کرتی ہے۔ علم حاصل کریں اورستاروں کی طرح روشن ہو جائیں، اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کمال تک لے جائیں”۔

مدرسےکا بڑا بیرونی دروازہ ایک صحن میں کھلتا تھا۔ اس صحن کے درمیان میں اندلسی طرزِ تعمیر کے مطابق حوض تھا اورچاروں طرف کمرے بنے تھے جن میں پڑھائی کے کمرے اورطالبعلموں کی رہائش تھی۔ صحن کے ایک جانب مسجد تھی، آج اس مدرسے کی تمام عمارت میں صرف مسجد کا ایک کمرہ ہی اصلی جالت میں بچا ہے۔

یہ چوکورکمرہ ہے، کمرے میں داخل ہوں تو سامنے محراب نظر آتی ہے۔ محراب اور کمرے کی خوبصورتی الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ محراب کے گرد مختلف رنگوں سے جوڑ کر ڈیزائن بنائےگئے ہیں، اس کے علاوہ قرآنی آیات کی خطاطی بھی نمایاں ہے۔ الحمرا کے محل میں لکھا ہوا، ” ولا غالب الا اللہ” بھی یہاں نظر آتا ہے۔ کمرے کے چاروں کونوں سے مقرنص ڈیزائن چھت پرجاکرآٹھ کونے لکڑی کے چھت سے مل جاتا ہے۔ چھت کے نیچےسولہ کھڑکیاں ہیں جو ہوا اور روشنی کے لیے استعما ل ہوتی ہونگی۔ کمرے میں خطاطی اور ڈیزائن میں استعمال ہوئے اصل رنگ ابھی تک محفوظ ہیں۔

سنہ 1491عیسوی میں مسلمانوں کی شکست کے بعد معاہدہ غرناطہ کے مطابق یہ مدرسہ 1500 عیسوی تک چلتا رہا۔ مگر 1500 عیسوی میں کیتھولک بشپ فرانسسکو جیمنیز ڈی سیسنروز کے زیرِ اثر معاہدے سے انحراف ہوا، اور کیتھولک حکمرانوں کی طرف سے زبردستی مسلمانوں کے تبدیلیِ مذھب، قتل اوردیس نکالے کی پالیسی چل پڑی۔ مدرسے پر قبضہ کر لیا گیا ، تمام عربی میں لکھی کتابوں کو سرعام جلایا گیا، خیال ہے کہ کم از کم پانچ ہزار سے زیادہ کتابیں جلائی گئی تھیں، کچھ مورخین کے مطابق تعداد کہیں زیادہ ہے۔

مدرسے کو ٹاون ہال میں تبدیل کر دیا گیا۔ عمارت میں کئی تبدیلیاں ہوئیں، حوض کومٹی سے پر کردیا گیا۔ صرف مسجد کا ایک کمرہ ہی اپنی اصل حالت میں باقی ہے۔ موجودہ دور میں یہ عمارت اب غرناطہ یونیورسٹی کے حوالے ہے۔

اس مدرسے کے نمایاں طالبعلموں میں ابن الخطیب شامل ہے جو کہ ایک شاعر، فلسفی، مورخ، طبیب اورغرناطہ میں وزیر رہے۔ الحمرا میں دیواروں پر انکی شاعری آج بھی خوشخط لکھی دکھائی دیتی ہے۔ ابن الخطیب نے یورپ کو صابن سے متعارف کروایا۔ اسکی تحقیق سے بیماریوں کے خاتمے کے لیےغسل میں صابن کا استعمال یورپین کو بتلایا گیا۔ لفظ سوپ یعنی انگریزی میں صابن عربی لفظ صف اور صفاء سے نکلا ہے جس کا مطلب صفائی ہے۔

مسافرنے کمرے کو غور سے دیکھا۔ کمرہ قبلہ رو کھڑا تھا، صدیوں سے کھڑا، ساکت۔ اذانوں کے آواز کہیں تھی، دور کہیں، یا کہیں نزدیک ہی، اذاں شاید تھی، یا شاید نہیں تھی، یقیناً تھی یا شاید گماں تھا۔ گماں جیسے کسی پیارے کو دفن کرنے کے بعد بھی گماں رہتا ہے کہ یہیں ہے، یہیں آس پاس، سرگوشی کرتا، ابھی آئے گا۔ غم کی چادرجسم
پراوڑھے، دکھ میں لپٹے بھی گماں ہوتا ہے، سب جھوٹ ہے،جھوٹ۔ دھند کی طرح چاروں طرف پھیلا جھوٹ۔

مسافر نے حُسن کی طرف دیکھا۔ حُسن اوردکھ ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔

مسافر کے پاس نذر کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔


ایک جسم تھا، قبلہ روہو کراُس کمرے میں سجدہ ریزہوا۔ صدیوں سےٹھہری، جامد زمین پر پیشانی رکھ دی۔ اورکچھ دینے کو تھا بھی نہیں۔ ساتھ کوئی اوربھی سجدہ ریز تھا، عالم یا صوفی۔ اسی مدرسے کے سبق پڑھتے بچے یا کوئی فاضل استاد۔

کوئی تھا، انتظارمیں، برس ہا برس کے انتظارمیں، صدیوں سے انتظار میں۔

اذاں کی آواز تھی، یا نہیں تھی۔ کوئی ساتھ تھا یا نہ تھا، کچھ توتھا یا کچھ بھی نہ تھا، اک سرگوشی تھی، ولاغالب الا اللہ ۔

حُسن اور دکھ ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor