رنگ کی رنگائی



“دادی، پارٹیشن کا فیلنگ کیا بہت ہی تکلیف دہ تھا؟ آئی مین، خود ہی تو آپ لوگوں نے کوشش کی الگ ہونے کی. جب الگ ہو گئے تو بٹوارے کا دکھ پال لیا. پھر پوری عمریں پاکستان کے لیے شکرانہ ادا کرتے، اور گرداس پور کو یاد کر کے آہیں بھرتےگزار دی. یہ کیا بات ہوئی بھلا؟”

میں منٹو کے افسانے پڑھ رہا تھا. ہر صفحے بعد طبیعت بوجھل ہوئے جا رہی تھی. عجیب کنفیوزڈ نسل تھی. شراب میں دودھ ملا کر پینے والی.

دادی رسان سے مسکرا دیں. انہیں عادت تھی میری چھلکتی طبیعت کی. ابو کے سامنے جذبات کو قاعدہ سکھانا پڑتا تھا، امی کے سامنے نرمی. لیکن دادی کے ساتھ میرا رشتہ مضبوط تھا. میرے اظہار کی تندی سہہ جاتا تھا… پتہ نہیں رشتہ سہہ سکتا تھا یا نہیں، دادی کی برداشت کی گہرائی ضرور میری شورش کی بازگشت کو نگل جاتی تھی.

“تم مالی کو کل لیموں کا پودا چھانٹنے کا کہہ آئے تھے؟”

“جی، کہہ دیا تھا. آپکو بتا بھی دیا تھا. آپ میری بات کا جواب دیں.”

دادی عینک اتار کر نیم دراز ہوگئیں. انکی کمر اب ذیادہ دُکھتی تھی. وہ بیٹھنے سے تنگ پڑ جاتی تھیں. میں موقع پا کر انکی رضایی میں گھس لیا.

“تمہیں پتہ ہے زندگی میں ہماری سب سے بڑی خامی، کم عقلی کیا ہوتی ہے؟

ہمیں لگتا ہے دل کی دنیا بلیک اینڈ وائٹ ہے. ایسا نہیں ہے. میٹھے اور ترش کے درمیان ذائقوں کی بڑی رینج ہے. ایک سفید کے دامن میں ہی پوری دھنک موجود ہے. سیاہ شب کے رنگ کسی رتجگوں کے مارے سے پوچھنا. ہر ہر پہر کا رنگ فرق ہے. عشاء کی سیاہی اور ہے، تہجد کی اور. فجر کی ان دونوں سے مختلف.”

“یعنی؟” میں ہونقوں کی طرح دادی کی شکل دیکھے گیا.
دادی کا رنگ کھلا ہوا تھا. پھپھو کہتی تھیں دادی کا رنگ اتنا صاف ہوتا تھا کہ ان کو خاندان میں گوری کہتے تھے سب. اب بھی رنگ صاف تھا لیکن اب انکی جلد میں سے جھلکتی نیلی نسیں اور جھریاں آپس میں زیادہ جگہ لینے کی کوشش میں رہتی تھیں. انکی کلائی میں نیلے پکھراج والی سونے کی چوڑی میں میں نے انگلیاں پھنسا لیں. دادی میرے سر میں ہاتھ پھیرتی رہیں.

“دادی، خوشی کافی نہیں پڑتی دل کو؟ دل مصروف رہنا چاہتا ہے؟ بور ہو جاتا ہے؟ کیوں سفید میں پوری دھنک ڈھونڈتا ہے؟”

دادی ہلکا سا ہنس پڑیں. یہ عادت انکو پہلے نہیں تھی. دادا کے فوت ہونے کے بعد پڑی تھی. یوں دادا کیا کرتے تھے کوئی گنجلک بات کرنے سے پہلے. جیسے صحن میں چھڑکاﺅ کر رہے ہوں. دادی نے دادا کا رنگ اوڑھ لیا ہے، میں سوچ کر مسکرا اٹھا.

“دل دھنک نہیں ڈھونڈتا میرے لعل. دل سچ ڈھونڈتا ہے. دل کاملیت تلاشتا ہے. یہی اسکا جوہر ہے. یہی اسکا خام.”

“چلو … ہُن کسی پاسے تے ٹکن دیو اس غریب نو!” میں شرارت سے بڑبڑایا.

دادی نے میرے سر میں پیار سے دھپ لگائی اور پھر سے انگلیوں کا کنگھا کرنے لگیں.

“جب سفر لمبے کرنے ہوں بیٹا تو گھر سے جلدی نکلنا ہوتا ہے. اس رات کی تکلیف کون بیان کر سکتا ہے؟ منزل کی کشش اپنی جگہ، مسافت کا روگ اپنا ہوتا ہے. کوئی جیت ایسی ہے ہی نہیں جو کچھ تجے بغیر حاصل ہو.
دو رنگی تو ہماری فطرت کا حصہ ہے. خیر اور شر. رات اور دن. میٹھا اور کھارا. دل قانع نہیں ہوتا کسی ایک پہلو پر. کیونکہ مورکھ کامل ہونا چاہتا ہے… اسے ہجر کا دکھ بھی جھیلنا ہے، اسے تکمیل کا سفر بھی کرنا ہے. اس لیے خود یہی جوہر اسکی کسک بن جاتا ہے.”

میں کہنیوں کے بل اٹھ بیٹھا.
“چلیں آپ بتائیں … آپ خوش ہیں یا دکھی؟”

“میں شکر گزار ہوں. اپنے دکھ کے لیے بھی، اپنے سکھ کے لیے بھی. میرے مولا نے مجھے کسی ذائقے سے محروم نہیں رکھا. میری زبان کو ترسنے کی سنہری تمازت بھی عطا کی، میرے دہن کو نیلگوں سیرابی سے بھی نوازا.
میں کیوں اپنے احساسات پر جہت کی حدود لگاؤں. ہر رنگ اسی کا ہے. ہر رنگ کا اپنا روپ ہے. جوگ کا ہو، یا جوبن کا، میں بسنتی رنگ کو کیوں نہ چاہوں؟”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).