اسلام اور بادشاہت


انسانی معاشرہ میں حکومت کا وجود فطری امر اور معاشرہ کے استقرار اور صلاح کے لیے ناگزیر ہے، حکومت کی تشکیل کا طریقہ کار اور حکمرانی کے اصول کی وضاحت سیاسی نظام حکم کرتا ہے، لہذا سیاسی نظام انسانی تخلیق کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا۔ انسانی تاریخ میں قدیم ترین نظام حکم بادشاہت ہے، بادشاہت کی ایک سے زائد اقسام ہے، لیکن بادشاہت کا عام تصور (جو آج بھی قائم ہے ) فرد واحد کی حکمرانی ہے، بادشاہ ریاست کا حاکم ہوتا ہے، ریاست کے تمام ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں، اور وہ مکمل طور پر خود مختار ہوتا ہے، اس کی زبان سے نکلے الفاظ قانون کی حیثیت رکھتے ہیں اور پوری ریاست اس کے قانون کی پابند ہوتی ہیں۔ اسلامی نظام حکم کی عملی شکل نہ ہونے اور نظام حکم کا عملی تصور پیش نہ کیے جانے کے باعث مغربی جمہوریت سے بغض رکھنے والے ایک بڑے طبقے نے بادشاہت کو اسلامی نظام تصور کرلیا، اور بادشاہت کو اسلامی ممالک کے لیے موزوں سمجھا، حالانکہ بادشاہت اوراسلامی نظام میں عدم مطابقت بالکل عیاں ہے۔

اسلامی نظام حکم کی بنیاد شوری پر ہے، اسلام نے حاکم کو مشورہ کا پابند بنایا ہے، حتی کہ نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے صحابہ کرام ؓسے مشورہ کرنے کا حکم دیا۔ خلفاءراشدین کا بھی یہی مزاج تھا کہ ہر امر میں اصحاب رائے سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کرتے، حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت میں کچھ لوگوں نے زکات ادا کرنے سے انکار کردیا، حضرت ابوبکر ؓ کی رائے تھی کہ ان کے خلاف جہاد کیا جائے، لیکن آپؓ نے فورا فیصلہ صادر نہیں فرمایا، صحابہ کرام کو جمع کیا گیا، مشورہ ہوا، حضرت عمرؓ خلیفہ کی رائے سے موافق نہیں تھے، معاملہ پر بحث ہوئی، حتی کہ حضرت عمرؓ کو خلیفہ کی رائے پر شرح صدر ہوگیا۔ یہ اسلامی نظام حکم کا نمونہ ہے، بادشاہت میں اس کا کوئی تصور نہیں، بادشاہت میں حاکم کی رائے ہی حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔

بادشاہت کا دوسرا بڑا مسئلہ حاکم کا قانون سے بالاتر ہونا ہے، بادشاہت میں حاکم کے محاسبہ کوئی نظام نہیں ہوتا، عوام کے اوپر قانون اور قانون کے اوپر حاکم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بادشاہت میں ظلم اور فساد عام ہوتا ہے، لیکن نظام عدل اور ذرائع ابلاغ پر بادشاہ کی گرفت کے باعث ظلم پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام حکم میں اس کے برعکس قانون حاکم و محکوم سب پر لاگو ہوتا ہے، اس ضمن میں حضرت عمر ؓکا اپنے حکام کا محاسبہ کرنا اور حضرت علیؓ کا خلیفہ ہونے کے باوجود قاضی شریح کے سامنے پیش ہونا اور قاضی کا خلیفہ کے خلاف فیصلہ سنانا قابل ذکر مثالیں ہیں۔

بادشاہت اور اسلامی نظام حکم میں تیسرا بڑا اختلاف اختیار حاکم سے متعلق ہے، بادشاہت ایک خاندان میں محدود ہوتی ہے، خاندان کے افراد کو ہی حق حکمرانی حاصل ہوتا ہے، اور اس کا تسلسل عموماً موروثیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسلام میں حاکم کا اختیار اہلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے، خاندانی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں، حاکم کے اختیار کا حق امت کو حاصل ہوتا ہے، اور امت اپنے نمائندوں (اہل حل و عقد) کے ذریعے اپنے حق کا استعمال کرتی ہیں۔ موروثیت کے عدم جواز پر تو علماء کا اجماع ہے، حتی کہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر اللہ نے کسی شخص کو مسلمانوں کی کا والی بنایا (اس میں چھوٹے درجے کی ولایت بھی شامل ہے) اور اس نے دوستی یا قرابت داری کی بنیاد پر کسی کو ذمہ دار بنایا (عوامی عہدہ یا اہم منصب پر تعینات کیا) تو اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کی۔

بادشاہت کی چوتھی بڑی آفت حکومت کی بقا وتحفظ کے لیے مذہب کا غلط استعمال ہے، بادشاہت کی اخلاقی بنیادیں انتہائی کمزور ہوتی ہیں، عوامی حقوق کا تحفظ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتاہے، اس لیے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بادشاہت کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے، اور بادشاہ کو مذہبی تقدس فراہم کیا جاتا ہے، اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے علم سے منسوب عوام کی نظر میں قابل احترام افراد کو استعمال کیا جاتاہے، جو احکام الہی اور دینی نصوص سے کھلواڑ کرکے بادشاہت اور شاہانہ احکامات کو مذہبی حمایت فراہم کرتے ہیں!

ان چار نکات سے یہ بات انتہائی واضح ہے کہ بادشاہت کا عمومی تصور اسلامی سیاسی نظام سے مختلف ہی نہیں متضاد ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد اسلامی نظام حکم کا عملی تصور پیش کیا جائے تاکہ عوام الناس اس حوالے سے مزید گمراہی کا شکار نہ ہو۔ واللہ اعلم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).