اکہتر برس: وہ سپنے سارے کدھر گئے؟


مملکت خداداد پاکستان کو وجود میں آئے خدا خدا کرکے 71 برس بیت گئے، اکہتر سال بغیر کسی شک و شبہ کے ایک طویل عرصہ ہوتا ہے وعدوں کی تکمیل، قوم کی تشکیل اور ایک مثالی معاشرے کے قیام کے لیے، ایک ایسا معاشرہ جس کا وعدہ برصغیر کے 10 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا، ایک ایسا وعدہ جو 1940ء کی تاریخی قرارداد میں محفوظ ہے، ایک ایسی قوم جسے کرہ ارض پر موجود دیگر اسلامی ممالک کی قیادت کرنی تھی اور مثال بننا تھا پر 7 دہائیوں سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے باوجود میرے خیال میں تو ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوسکا، ایک بھی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپایا، ہر سال اگست کا مہینہ میرے لیے حیرت انگیز سوچ کا سامان لیے آتا ہے، میں سوچتا ہوں جب بانیء پاکستان نے 11 اگست 1947ء میں کیے گئے اپنے تاریخی خطاب میں ریاستی تشکیل کے تمام نکات کو واضح کردیا تھا تو آخر ان کے چلے جانے کے بعد وہ کون سی طاقت تھی یا ہے جس نے پورے کے پورے اکہتر سال گذرجانے کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح کے کسی ایک بھی نکتے پر عمل ہونے نہیں دیا اور پاکستان آج ان گنت مسائل کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔

اقلیتی برادری جو کہ کسی بھی معاشرے کا حسن کہلاتی ہے ہمارے ہاں کیا کچھ نہیں ہوا ہندوئوں،عیسائیوں اور دیگر اقلیتی لوگوں کے ساتھ، جہاں پر ایک بہترین اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا لولی پاپ دیا گیا آج ذرا نظر تو دوڑائیں کہ ہمارے ہاں ہر چیز اسلام کے زرین اصولوں کے برخلاف، معاشرہ اجتماعی طور پر اخلاقی پستی کا شکار،ناپ تول میں بے ایمانی، جھوٹ، رشوت خوری، ناانصافی، بیشتر کاروبار مذہبی خیالات کے حامل افراد اور حاجی صاحبان کا پر بازاروں میں خالص اشیاء ناپید، ملاوٹ شدہ تمام چیزیں وافر مقدار میں موجود، مجھ جیسے لوگ تو بے چارگی کے عالم میں بس دیکھتے اور سوچتے ہی نکل جاتے ہیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چکر کیا چل رہا ہے، یہاں تک مساجد کے واش رومز بھی ٹھیکے پر چڑہائے جاتے ہیں،مذہب کو کاروبار کیوں کر بنایا جاتا ہے، بہرحال مجھے تو ڈر سا لگا رہتا ہے کہ کہیں فتوے نہ صادر ہوجائیں ان سب باتوں پر کیوں کہ ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا شخص خود ساختہ مولوی ہی تو ہے جنہیں ضیاء الحق کے سائے تلے شروع کی گئی افغان جنگ،جہاد عظیم تصور ہوتی ہے، جو اپنے ہی کلمہ گو بھائی کو صرف اس بنیاد پر مار کر پھینک دیتے ہیں کہ اس کا تعلق مخالف فرقے سے ہوتا ہے، خون ناحق جو اس سرزمین پر بہایا گیا ہے اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں رکھتا، پاکستان میں پہلے دن سے سیاسی و مذہبی بنیادوں پر قتل کا سلسلہ شروع ہوا دیکھا جائے تو آج تک وہ سلسلہ جوں کا توں جاری ہے کیا مجھے کوئی ذی شعور بتانا پسند فرمائے گا کہ یہ خونی تسلسل مزید کب تک جاری رہے گا؟

اس ملک کے کروڑوں لوگوں کے لیڈر نے تو واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ریاست میں سب لوگ وہ چاہے مسلمان کیوں نہ ہوں، ہندو کیوں نہ ہوں،سکھ اور عیسائی کیوں نہ ہوں سب کو برابری کی بنیاد پر تمام تر حقوق فراہم کیے جائیں گے ریاست کا کسی بھی شہری کے مذہب،دھرم اور عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا تو آخر کیا ہوا اس عظیم تر ریاست بنانے والے خواب کا؟

کوئی مجھ ادنیٰ سے ذہن کو بتانا پسند فرمائے گا کہ خواب آج تک ادھورا کیوں رہ گیا، کیا کوئی میرے ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کا جواب دے گا کہ 1971ء میں جو قائداعظم کا پاکستان ٹوٹ کر دو لخت ہوگیا اس کا ذمہ دار کون تھا، کیا کوئی مجھے بتانا پسند فرمائے گا کہ جب قائداعظم واضح کہہ چکے تھے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہوگا جس میں حق حکمرانی عوام کے پاس رہے گا، پھر یہ طالع آزما کون تھے، کہاں سے آ ٹپکے تھے جنہوں نے قائد کے فرمان کو یکسر نظرانداز کرکے ملک کے غریب، مسکین، مجبور و ناچار عوام کے دہائیوں تک تمام بنیادی حقوق کو کیوں سلب کر رکھا، کیا اس سوال کا جواب ہے کسی کے پاس کہ مسلم لیگ سندھ کے سابق صدر غلام مرتضیٰ شاہ المعروف جی ایم سید (جنہوں نے سندھ اسمبلی سے قرارداد پاکستان منظور کرائی تھی) وہ کن وجوہات پر پاکستان کے مخالف بن گئے اور آخری سانس تک سندھودیش کے حق میں دلائل دیتے رہے، کیا کوئی یہ بتانا پسند فرمائے گا کہ بلوچستان کی عوامی سیاسی قیادت ہر دور میں جن سخت ترین خدشات کا اظہار کرتی آئی ہے ان کا ازالہ کرنے کو ریاست نے سوچا کبھی؟

اور ہاں ملکی تاریخ کا جو سب سے بڑا سیاسی قتل بذریعہ عدالت عظمیٰ ہوا ایک ایسی سحر انگیز شخصیت جس کو پوری دنیا میں شہرت حاصل تھی میری مراد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ہے، کیا اس خون ناحق کے ذمہ داران سے کبھی پوچھا گیا کہ اتنے بڑے لیڈر کو یوں بے یارو مددگار کیوں قتل کیا گیا؟

افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں ایسی بے شمار مثالیں رکارڈ پر موجود ہیں، ناانصافی اور لاقانونیت پر مبنی بے شمار کہانیاں ہیں، قصے ہیں جن سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے پر ستم ظریفی یہ بھی تو ہے نا کہ ہم اپنی نسلوں کو تاریخ بھی نہیں پڑہاتے اور سمجھتے ہیں کہ اس سے کئی حقائق چھپ جائیں گے، وہ تمام وعدے بھول جائیں گی آنے والی نسلیں اور وہ سارے خواب آنکھیں سے اوجھل ہوجائیں گے جو تحریک آزادیء پاکستان کے دوراں کروڑوں لوگوں سے کیے گئے تھے، پر نہیں جناب یہ تو ناممکن سی بات ہے، بچگانہ سی امید ہے جو کبھی بھی پوری نہیں ہوپائے گی، سچ پوچھیں تو میرے جیسے کئی نوجوانوں جب اپنے ملک کی71 برس پر محیط تاریخ پر نظر ڈالتی ہے تو ایسے اور اس جیسے بہت سارے سوالات ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں کہ ایک ریاست جس کو بہترین مثال بننا تھا وہ آخر کیوں دنیا میں ایک مثبت تاثر قائم نہیں کرپائی کیوں ایسے لوگ ہم پر حکمرانی کرنے آجاتے ہیں جنہیں عوام کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہوتی،آج تک کسی آمر کو کیوں سزا نہیں دی گئی، آخر کب تک ایسے چلتا رہے گا؟ کوئی تو ہو جو مجھے ان تمام سوالات کے جواب دے اور بتائے کہ قیام پاکستان کے وقت جو دکھائے گئے وہ سپنے سارے کدھر گئے۔۔۔؟؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).