“پُرسکون حکمرانی” کی اداکاری


آج کل کروڑوں ہم وطنوں کو بس ایک ہی مسئلہ درپیش ہے، ایک ہی سوال ہے جس کے جواب کی تلاش دن رات، بستی بستی، گلی گلی جاری ہے۔ ’’ہمارے محبوب قائد اور اگلے وزیراعظم عمران خان کہاں رہیں گے۔‘‘ بقول ظفر اقبال:

کھڑکیاں کس طرح کی ہیں، اور، در کیسا ہے وہ

سوچتا ہوں، جس میں وہ رہتا ہے، گھر کیسا ہے وہ

یہ درست ہے کہ آج سے پہلے پاکستان کے کسی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کا معاملہ اس قدر توجہ کا حقدار نہیں ٹھہرا، لیکن آج سے پہلے کبھی کوئی ’’خوابوں کا شہزادہ‘‘ وزیر اعظم کے عہدے پر فائزبھی تو نہیں ہوا۔ عمران خان صاحب کے پرستاروں کے لئے یقیناً وہ دیومالائی کشش رکھتے ہیں،جن کی ہر ہر ادا نعرہ آمنا و صدقنا کی حقدار ہے۔ اسی طرح خان صاحب کے سیاسی مخالفین بھی پُرتجسس ہیں اور ان کی طرف ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ برسہا برس سے خان صاحب ہماری شاہانہ سرکاری رہائش گاہوں، اُن کے مکینوں اور اُن کے اللے تللوں کے شدید ناقد رہے ہیں۔

تو کہاں رہیں گے عمران خان؟ اس سلسلے میں تحریک انصاف تادمِ تحریر چار مختلف اعلانات کر چکی ہے۔ پہلے بنی گالا کا ارادہ ظاہر کیا گیا، پھر پنجاب ہائوس کی جانب رُخ ہوا، اس کے بعد عام پارلیمنٹرین لاجز کا عندیہ دیا گیا، پھر قُرعہ وزیر اعظم ہائوس کے اندر واقع ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ کے نام نکلا۔ فیصلہ سازی کے ضمن میں یہ تلون بہرحال ایک عظیم الشان آغاز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال دیکھنے میں آئی تھی۔ بہرحال، اچھی بات ہے کہ انتہائی آغاز میں ہی برسرِ اقتدار آنے والی جماعت کو اپنی فیصلہ سازی کے میکنزم کے جھول کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

کیا ضروری تھا کہ سب سے پہلے عمران خان کی سرکاری رہائش گاہ کا اعلان کیا جائے؟ اپنے پرائے اُکساتے رہتے آپ مسکرا کر کہہ سکتے تھے کہ ’’فیصلہ عوامی خواہشات کے عین مطابق ہو گا۔‘‘ متعلقہ اداروں سے مشورہ کرتے اور تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر ایک فیصلہ کرتے ۔ جلدی کیا تھی؟ جس طرح وفاقی اداروں پر سوئی دھاگہ خریدنے سے پہلے بھی ایک نظر پیپرا قوانین پر ڈالنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح وزیراعظم پاکستان سے متعلق ہر فیصلہ کرتے ہوئے کچھ قوانین اور ادارے نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ایک علامتی مسئلہ ہے، اس کی Symbolic Significance اپنی جگہ لیکن بہرحال یہ ایک کاسمیٹک تبدیلی ہے، جو سوچ سمجھ کر کچھ دن بعد بھی کی جا سکتی تھی۔

اندرا گاندھی کے قتل کے ایک سال بعد 1985 میں دہلی میں اُن کی رہائش گاہ 1 صفدر جنگ روڈ دیکھنے کا موقع ملا، اُس کی سادگی آج تک حافظہ میں کھدی ہوئی ہے۔ ستّر کی دہائی میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کی اسٹاف کالونی میں بالکل ویسا ہی ایک گھر والد صاحب ؒکو بطور اسسٹنٹ پروفیسر ملا ہوا تھا۔ انتہائی مہذب سائز کے گھر، جن کے مکین نارمل لوگ ہوتے ہیں، جن کے درودیوارانسانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے نہیں ہوتے، بس ایک چار دیواری ہوتی ہے۔ دہلی کے اُس گھر کا ایک کمرہ اکثر یادوں میں اُبھرتا ہے، کتابوں سے لدا ہوا کمرہ، اندرا گاندھی کی ذاتی لائبریری جس میں تاریخ عالم و سیاسیات سے شاعری تک کئی موضوعات پر نادر کُتب محفوظ تھیں۔

یہ درست ہے کہ بھارت میں جب نیا وزیر اعظم چُنا جاتا ہے تو عموماً وقتی طور پہ اُس کی قیام گاہ کو سرکاری رہائش گاہ کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور اُسے وزیر اعظم ہائوس منتقل ہونے کے لئے ایک آسان ٹائم فریم دیا جاتا ہے۔ عمران خان پڑوس کی اس روایت سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، بالخصوص جبکہ وہ کسی جمے جمائے وزیر اعظم ہائوس میں نہیں جا رہے بلکہ کسی نئے ٹھکانے کی تلاش میں ہیں۔

انا کا ایک اور بھی جال ہے جس سے عمران خان کو بچنا ہو گا۔ کئی حکمران ایسے گزرے ہیں جو سادہ تو تھے مگر اپنی سادگی کا ڈھول اس سے بھی زیادہ پیٹتے تھے، جیسے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے بارے ایک فقرہ مشہور تھا کہ He was ostentatious about his simplicity، پھر تاریخ عالم میں کچھ حکمران ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنی سادگی کی تشہیر پہ قوم کا بے پناہ پیسہ ضائع کرتے رہے ہیں۔ بلبل ہند سروجنی نائیڈو کا وہ فقرہ تو ہم سب نے سُن رکھا ہے جو انہوں نے گاندھی جی سے کہا تھا کہ ’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو غربت میں رکھنے پہ روزانہ حکومت کا کتنا خرچہ آتا ہے۔‘‘ گاندھی ٹرین کی تھرڈ کلاس میں سفر کرتے تھے، لیکن ہر اسٹیشن پر اُن کے ہزاروں عقیدت مندوں کے جھنڈ کے باعث اُن کے لئے اسپیشل ٹرین چلانی پڑتی تھی اور ایک پورا کمپارٹمنٹ اُن کے لئے مختص کرنا پڑتا تھا اور جب اپنے ضیاء الحق سائیکل پہ دفتر تشریف لے گئے تھے اُس پر بھی قوم کے لاکھوں خرچ ہو گئے تھے۔ لہٰذا خان صاحب ذرا سوچ سمجھ کے، اچھی طرح حساب کتاب کر کے سادگی کا ’’مظاہرہ‘‘ کیجئے گا۔ یہ درست ہے کہ نئے وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور اس بارے فوری فیصلے کی ضرورت، یہ دونوں امور populismکی سیاست کا شاخسانہ ہیں۔ ہمارے سنجیدہ مسائل کچھ اور ہیں۔

سنجیدہ مسائل کا حل ایک مستحکم حکومت ہی تلاش کر سکتی ہے، اور ایک مستحکم حکومت کی اولین شرط پُرسکون سیاسی فضا ہے۔ کیا یہ فضا خان حکومت کو میسر آسکے گی؟ یہ ہے Million Dollar Question۔ سو دن کا ہنی مون پیریڈ گزرنے کے بعد کیا ہو گا؟ موجودہ سیٹ اپ پیپلز پارٹی کے لئے کوئی بُری خبر نہیں ہے، سندھ میں اُس کی صوبائی حکومت ہے اور نیشنل اسمبلی میں اُسے سندھ سے اتنی سیٹیں ملی ہیں جو بے نظیر کی شہادت کے فوراً بعد بھی نہیں ملی تھیں۔ جلد انتخابات پیپلز پارٹی کو اس سے بہتر کچھ نہیں دے سکتے، لہٰذا پی پی پی کسی بھی حکومت مخالف مہم جوئی کا بھرپور ساتھ دینے کی قطعاً کوئی ضرورت محسوس نہیں کرے گی بلکہ ایوانوں میں اپنی طاقت کو اپنی قیادت کے خلاف کیسز کو قابو میں رکھنے کے لئے استعمال کرے گی۔

دوسری طرف مسلم لیگ نون کے موجودہ صدر شہباز شریف بھی بوجوہ ایک حد سے آگے جانے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ اس وقت صرف مولانا فضل الرحمٰن اور پختون نیشنلسٹ نئی اسمبلی کے خلاف آخری حد تک جانا چاہتے ہیں مگر اس مہم کے لئے اُنہیں فی الحال مسلم لیگ نون کا ساتھ میسر نہیں ہے۔ اگر مسلم لیگ نون کو دیوار سے لگانے کا عمل جاری رہتا ہے پھر بھی پی ایم ایل نون کو ’’آخری فیصلہ‘‘ کرنے میں سال ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے۔ سیاسی منظر کہہ رہا ہے کہ غالباً نئی حکومت کو اپنے پہلے سال میں ناقابلِ برداشت سیاسی دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

پی ٹی آئی آغاز سے اس کوشش میں نظر آ رہی ہے کہ سیاسی ماحول کی تلخی کو کم کیا جائے اور سیاسی فضا کو پُرسکون حکومت کے لئے سازگار بنایا جائے۔ نواز شریف اور مریم نواز جب تک جیل میں ہیں، خان حکومت کی یہ خواہش شاید پوری نہ ہو سکے۔ دو دن قبل، ایک طرف نئے ایوان کے ارکان حلف اُٹھا رہے تھے اور دوسری طرف پاکستان کا تین دفعہ منتخب وزیرِ اعظم اور موجودہ اسمبلی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر، ایک بند گاڑی میں احتساب عدالت لے جایا جا رہا تھا۔ یہ ایک افسوسناک منظر تھا۔ ایسے میں ’’پُرسکون حکومت‘‘ کی صرف اداکاری ہی کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).