اب روبوٹس ڈاکٹروں کی جگہ لیں گے


پچھلے ہفتے یونیورسٹی اور ایک مقامی کمپنی کی مشترکہ جدید تحقیق میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ پینتالیس منٹ کا یہ سیشن ایک مصنوعی ذہانت والی انسان یا روبوٹ ’لیا‘ (روبوٹ کا نام) کے ساتھ بات چیت اور سوالات اور جوابات پر مبنی تھا۔ اس سے پہلے بارہا مصنوعی ذہانت والی مشینس کے ساتھ انٹرایکشن ہوا مگر یہ ون او ون سیشن حیرتوں کے پہاڑ اپنے آپ میں سموئے ہئے تھا۔ سب سے زیادہ متاثرکن صلاحیت لاکھوں اعداد و شمار کو ذخیرہ کرنے اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اسے دوبارہ حاصل کرنے اور مسلسل سیکھنے کی قابلیت بھی ان مشینس کو انسانوں سے ممتاز بناتی ہے۔ پینتالیس منٹ کے ایک سیشن میں وہ آپ کی شخصیت کا اچھا خاصا خاکہ تیار کر لیتی ہے اور اگلی ملاقاتوں اسے بہتر سے بہتر بنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

مستقبل کو جاننے کی انسانی جستجو نئی نہی ہے، ہزاروں سالوں سے انسان سادھوں، نجومیوں، ستاروں اور کنڈلیوں میں اسے ڈھونڈتا رہا ہے مگر آج کی دنیا کا مشترکہ مستقبل کچھ اور نہی صرف ٹیکنالوجی کے ارتقا اور اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ ماڈرن دنیا میں مستقبل کے بارے میں مکالمہ مصنوعی ذہانت، بگ ڈاٹا اور بلوک چین (بٹ کوئن اور کرپٹو کرنسی بنانے والی ٹیکنالوجی) اور تھری ڈی پرنٹنگ جیسی ٹیکنالوجی پر کھڑا ہے۔ ان میں سے دو اس چوتھے صنعتی انقلاب، جس میں آج ہم رہ رہے ہیں، مصنوعی ذہانت اور بگ ڈاٹا کو مستقبل کا گیم چینجر کہا جا رہا ہے جو آنے والے پندرہ سے بیس سالوں میں روزگار، تعلیم اور صحت سے لے کر زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوگا۔ اس کالم کی لمبائی صرف ان دو پر ہی بات کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

میکنزی اینڈ کمپنی کے ڈائریکٹر اینڈریو گرانٹ کے مطابق 2030 تک آج کے دور کی 98 فیصد نوکریاں مصنوعی ذہانت سے متاثر ہوں گی۔ مطلب یہ کہ کام کرنے کے انداز بتدریج بدلتا جائے گا اور دنیا کا کوئی ایسا کام نہی ہوگا جو مصنوعی ذہانت سے متاثر نا ہو۔

اس کا سب سے پہلا اثر جاب مارکیٹ پر پڑے گا۔ مصنوعی ذہانت اپنی پہلی لہر میں ان کاموں پر اثر انداز ہوگی جسے ہم خطرناک، گندے اور ناخوشگوار مانتے ہیں جس میں بار بار ایک ہی قسم کا کام ایک ہی طرح کرنا ہوتا ہے (جیسا کے فیکٹری، سروس، ریسیپشن، ہیلپ لائن، )، یہ سب کام مشین جلدی، سستا اور آسانی سے کر پائیں گی۔ اس کا مطلب انسانوں کو وہ کام کرنے کی ضرورت نہی رہے گی جسے وہ پسند نہی کرتے اور ایسے کام مصنوعی ذہانت سے آراستہ کمپیوٹر کر لے گا۔

صرف صحت کے شعبے کو دیکھیں تو حال ہی میں لندن میں گوگل کے ڈیپ مائنڈ پروجیکٹ کی مدد سے مصنوعی ذہانت سے آراستہ روبوٹ نے آنکھوں کی بیماریاں ایک ماہر ڈاکٹر کی طرح 94 فیصد درستگی کے ساتھ صحیح تشخیص کیں اور ایک بھی ارجنٹ مریض کو مس نہی کیا جسے ایک انسانی ڈاکٹر مس کر سکتا تھا۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت سے چلنے والے جراحی روبوٹ کو جہاں مکمل لائبریری کی سہولت موجود ہے وہی سینسروں اور حساسیت کا استعمال بھی انسانوں سے کہیں بہتر طور پر کر سکتا ہے۔ مستقبل میں ایک ایسا منظر تصور کریں جہاں مصنوعی ذہانت بہت جلد اگر ماہرین نہی تو عام ڈاکٹروں کو تو ضرور تبدیل کرے گی۔ مورفیلڈس آئی چیریٹی کے چیف ایگزیکٹو رابرٹ ڈفٹن کے مطبق: ”مصنوعی ذہانت یہ صلاحیت دکھا رہی جہاں بیماریوں کی تشخیص اور علاج کی تجویز کی رفتار کلینکس میں ڈاکٹرز کے محدود وقت کا بہترین استعمال میں مدد دے گی“۔

دوسرا مصنوعی ذہانت کا اثر ہم انسانوں کی صحت اور صلاحیتوں کے آضافہ پر بھی ہوگا۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں بہتری آتی جائے گی ویسے ہی اس کا استعمال انسانوں پر بھی ہونے لگے گا۔ مصنوعی ذہانت سے آراستہ ہاتھ، ٹانگیں، آنکھیں، تو ابھی سے موجود ہیں، مگر اس کا استعمال صحتمند انسانوں میں شروع نہی ہوا۔ ایسا یقینی طور پر ممکن ہے مستقبل میں ہم اپنے بظاہر صحتمند عضو کو محض اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے مصنوعی ذہانت والے مشینی عضو سے بدل لیں اور انسان کے سپر ہیومن بننے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہچائیں۔

بگ ڈاٹا اور مصنوعی ذہانت کو انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) سے ملائیں تو مستقبل کی دنیا کا تصور بلکل ہی الگل سامنے آتا ہے۔ ڈاٹا کی کئی اقسام ہیں یہ روایتی منظم سائنسی اعداد و شمار سے غیر منظم دستاویزات، ای میل، سوشل میڈیا کے پیغامات اور تصویریں، ویڈیو، آڈیو، سٹاک ٹکر، سی سی ٹی وی ویڈیوز اور مالی ٹرانسمیشن بھی ہو سکتی ہیں۔ روایتی طور پر بگ ڈاٹا گوگل، فیس بک، سوشل میڈیا اور حکومتوں کے کنٹرول مین ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج کی دنیا ڈاٹا کی دنیا ہے تو غلط نہی ہوگا۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں کے حساب سے ہر دن ڈاٹا جمع ہو رہا ہے اور کچھ ہی سالوں میں یہ ڈبل ہو جاتا ہے۔ ہر شعبہ میں ہمیں لامحدود ڈاٹا کی موجودگی سے فلحال اس کے تجزیہ اور نتائج کا عمل نہات مشکل ثابت ہو رہا ہے اور اکثر نامکمل تجزیات سامنے آتے ہیں۔ شاید کچھ وقت میں اس کا بھی کوئی حل نکل آئے۔

جو تبدیلی انسانی معاشرے میں ہزاروں سالوں میں آئی صنعتی انقلاب نے وہ سفر صرف چند صدیوں میں ہی پورا کر لیا اور اکیسویں صدی میں تو یہ تبدیلی کا سفر چند دہائیوں پر مشتمل ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد اقوام عالم میں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جو فاصلہ پیدا ہوا اسے دوسری اقوام آج تک پر نہی کر پائیں۔

اس تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟ ایک ایسا ملک جہاں UNDP پاکستان کی رپوٹ کے مطابق تیس سال تک کے نوجوانوں کی تعداد 64 فیصد ہو اور اس میں سے صرف چھ کے پاس بارہ یا اس سے زیادہ کی تعلیم ہو، سو میں سے تیس پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں اور صرف سو میں سے چھے کے پاس لائبریری تک رسائی ہو وہاں ایسی جدید ٹیکنالوجی کی باتیں عجیب لگتی ہیں۔ یوال ہراری اپنی کتاب ہومو ڈییس میں لکھتے ہیں کے ٹیکنالوجی کے پھیلنے سے ایک یوز لیس (ناکارہ) کلاس پیدا ہوگی، جو غربت کی وجہ سے یہ نا مارکیٹ پر اثر انداز ہو پائے گی نا حکومتوں کے فیصلہ سازی پر کوئی اثر ہوگا۔ اگر آج ہم دنیا کی یوز لیس ریاست نہی بنے تو چند سالوں میں ضرور یہ مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

اس انقلاب کے قریب پہنچنے یا قیادت کرنے کے لیے کیا ضروری یہ ایک مختلف موضوع ہے اور کسی دوسرے دن کے لیے چھوڑتے ہیں۔ دنیا میں صرف تبدیلی ہی مستقل ہے اور بدلتے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت والی اقوام ہی زندہ رہ پاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).