بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں


جب کسی کی یہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو اسے اللہ کی رحمت کہا جاتا ہے ۔ کہتے ہیں جب کہیں بیٹی جنم لیتی ہےتو باری تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے ، اور اللہ فرماتا ہے ، “اپنی بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھو ، یہ والدین کے لیے رحمت اور شفاعت کا باعث بنتی ہے ۔”
حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ، “جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہو تو اسے طعنہ نہ دو ، کیونکہ میں بھی ایک بیٹی کا باپ ہوں “.
بیٹیوں کی تعلیم کے حوالی سے یہ بعد کہی جاتی ہے کہ جب ایک بیٹی نے علم حاصل کیا تو لحذا پورے گھر نے کیا ، اور ایک بیٹے نے کیا تو بس ایک نے ہی کیا ۔ بڑے ہی خوش نصیب ہوتے ہیں وہ ماں باپ جن کی یہاں بیٹی جنم لیتی ہے ، اور انکی بخشش کا باعث بنتی ہے ۔

میاں محمد نواز شریف اور کلثوم بیگم کے یہاں جب دو بیٹیوں کی ولادت ہوئی ، تب انھوں نے ان میں سے جب ایک کا مریم نام رکھتے وقت لازمی سوچا ہوگا کہ ، اس مریم نام کا مقام کتنا اونچا ، کتنا وسیع ، مان مرتبے والا ہے ۔ مریم نام پہ تو پوری ایک سورہ کلام پاک میں درج ہے ۔ بیبی مریم صہ ان پاک ہستیوں میں سے ہے ، جن پہ ہم مسلماں فخر کرتے ہیں ۔ بیبی مریم نے اللہ کے حکم سے اپنی کوکھ میں سے حضرت عیسیٰ کو جنم دیا ، اور اس کو بڑی حفاظت سے بڑا کیا ، اور دشمنوں کے ہر وار سے بچایا ۔ بیبی مریم کےطرح یہ نام بھی بڑی ہمت و شجاعت والا ہے ۔ پر ممکن ہے نواز شریف اور اسکی اہلیہ اس نام کے اندر چھپی گھرائی کو تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتے ہوں ۔ جب نواز شریف نے مریم کو کیپٹن صفدر سے بیاہ کے سسرال روانہ کیا ہوگا ، تب اسے کیا پتہ ہوگا کہ یہی بیٹی جو کہ میں پرایہ دھن سمجھ کے وداع کر رہا ہوں ، وہی میری ہر مشکل میں میرا اس طرح ساتھ دی گی ، جیسے میرے دو بیٹے حسن اور حسین بھی شاید دے نہ پائیں ۔ نواز شریف کی دختر پہلے تو سیاست اور سیاسی دنیا سے کافی دور تھی اور کبھی منظرعام پہ نظر نہیں آئی ۔ وہ اپنی گھر گرستی اور بچے سنبھالنے میں اتنی مصروف ہوگئی کہ ، اس نے کبھی اپنی اندر چھپی قابلیت پہ توجہ نہ دیا ۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کے میں نے اس کو کبھی سیاسی تقریر کرتے یا اپنے تقاریر سے اپنے اباجان کی سیاسی طور پہ حمایت کرتے ہوئے دیکھا ہو ۔ پر اس نے سن 2012 کو ، کئی رنگینیون اور سیاہیوں سے بھری ، ہر آنے والے لمحات میں بدل جانے والی منظرنامے کی سیاسی دنيا میں قدم رکھا ۔ مریم نے 2013 کے عام انتخابات کی انتخابی مہم بھی چلائی ۔ اسی سال 2013 کو انتخابات کے نتائج میں جب مسلم لیگ ن کی جیت کا اعلان ہوئا ، اور ان کی مرکز میں اور صوبہ پنجاب میں حکومت بنی تو ، مریم کو پرائم منسٹر یوتھ اسکیم کا چِئیرپرسن مقرر کر کے اہم کامیابی سونپی گئی ، تاہم اعتراضات کے باعث ، جب اس کی تقرری پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں چئلینج کی گئی تو وہ کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے اس عہدے سے مستعفی ہوگئیں ۔ اور جب 2016 کو پاناما پیپرز لیکس آئی تب اس کا اپنے ابو نواز شریف ، اور دو بھائیوں حسن اور حسین کے ساتھ غیر قانونی طور پہ ملک کے باہر ملکیت بنانے پہ ، نام اور تصویریں شایع ہوئیں ۔ نیب نے جب س کا نوٹس لیا اور پاناما پیپرز کیس کے شروعاتی بیانی میں ، تیسرے دفعہ وزيراعظم بننے والے نواز شریف کو ، نا اہل کر کے اس عہدے سے سبقدوش کیا گیا ، تب نہ جانے کہا سے ان کی یہ بیٹی اصل رحمت کا روپ لے کہ نمایاں ہوئی ۔ ایک بیوی ، تین بچوں کی ماں اور نانی ہونے کے باوجود وہ اپنے بیٹی ہونے کا فرض یوں نبھائی گی ، کسی کو گمان نہ تھا ۔ حالانکہ وہ کافی عرصے سے سماجی رابطوں والی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر سرگرم تھی اور اپنے سیاسی جماعت اور ، اس کے اراکین کا دفاع کرنے اور مخالفین پر تنقید کرنے میں آگے آگے تھیں ۔ پر ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہا ہاتھ میں موبائل لے کہ ٹوئیٹ پہ ٹوٹیٹ کرنا ، اور کہاں میدان میں سامنے آکے مقابلا کرنا ۔ سوشل میڈیا کا استمعال تو ہر کوئی کر کے بڑی بڑی باتیں کر سکتا ہے ، پر اصل امتحان تب ہوتا ہے جب آپ لوگوں کے بیچ میں آکے ،، ان کی نظروں سے نظر ملا کے اپنا موقف پیش کریں ۔ یوں جیسے ہی نواز شریف پاناما کیس کے شروعاتی فیصلے کے بعد اپنے عہدے سے فارغ ہوئے اور پارٹی مشاروت سے فیصلا کیا کہ وہ اب ، “مجھے کیوں نکالا” اور “ووٹ کو عزت دو” کی تحریک چلائیں گے ، تب ان کے ساتھ ہی ان کی بیٹی مریم بھی اس تحریک کا حصہ بن گئیں ۔ جب نواز شريف سیاسی تنہائی کا شکار ہونے لگے، اور آنے والے وقت میں بہت سے پارٹی رہنماؤں کے روٹھ جانے یا چھوڑ جانے کا ڈر تھا ، جب نواز شریف کے بیحد ہی قریبی اور ان کے دور میں وفاقی وزیر داخلا رہنے والے چودھری نثار اپنی راہیں جدا کرنے کا عندیہ دینے لگے ، تب مریم اپنے ابو اور اپنا لیڈر ماننے والے نواز شریف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہوگئی ۔ تقاریر میں روانی ، چہرے پہ شکست کی غیر موجودگی اور اس کا حوصلہ یہ ثابت کر رہا تھا کہ بیٹیاں ہوں تو ایسی ، جو پرائی ہوکے بھی اپنی ہیں ، جو رخصت ہو کے بھی ساتھ نہیں چھوڑتی ۔ مریم اپنے ابو کی چلائی ہوئی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرتی رہی ۔ اور جب نواز شریف کی قومی اسیمبلی کی نشست این ای-120 میں ، نا اہلی کی وجہ سے خالی ہوئی ، وہاں پہ جب ضمنی انتخابات کرائے گئے تو مسلم لیگ ن کے طرف سے بیگم کلثوم اور سامنے بمقابلا پاکستان تحریک انصاف سے یاسمین راشد کو نامزد کیا گیا ، تو مریم نے دن رات اس حلقے میں انتخابی مہم چلائی اور یہ نشست جیت کہ دکھائی ۔ جب پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم ( جی آء ٹی ) تشکیل دی گئی ، تو مریم اپنے بابا نواز شریف کے ساتھ لگاتار پیشیاں بگھتتی رہی ۔ یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ وہ پاکستان کی پہلی بیٹی تھی جس نے اپنے والد کے ساتھ سئو سے زیادہ پیشیاں بگھتی ۔ اور ساتھ ہی میں جب پچیس جولائی کو عام انتخابات کرانے کا اعلان ہوئا ،، تب بھی مریم ایک طرف پیشیاں بگھتتی تھی ، دوسرے طرف جلسے جلوسوں میں شامل ہوکے انتخابی مہم پورے زور شور سے چلانے لگی اور پارٹی کارکناں اور ورکرز سے روابط تیز کرلیے ۔ 2018 کے عام انتخابات کے لیے مریم کو قومی اسمبلی کے حلقہ این ای-127 ، اور صوبائی اسمبلی پنجاب کے حلقہ پی پی-173 پہ مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹکیٹ جاری کیا گیا ۔ وہ اپنی اور اپنی جماعت کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہی تھی ۔ ايک طرف وہ اپنے والد کا دفاع کرتی تھی ، دوسری طرف عوام سے ووٹ مانگتی تھی ۔ اس کی جرئتمندانہ شخصیت کو دیکھ کر ہی ، سال پہلے 2017 کو اسکا نام بی بی سی کے سئو بہادر خواتین میں شامل کیا گیا تھا ۔ اور اُسی سال دی نيويارک ٹائیمز اخبار نے تو مریم کا نام دنیا کے گیارہ مضبوط خواتین میں شامل کردیا تھا ۔ پھر جب پتا چلا کے مریم کی امی بیگم کلثوم لندن ہسپتال میں انتہائی تشویشناک حالت میں ہے ، تب انھوں نے درخواست دی کہ ہمیں لندن جانے کا اجازت ناما دیا جائے ۔ یوں اجازت ملنے پر اپنے ابو نواز شریف کے ہمراہ مریم لندن روانہ ہوئی ۔ وہاں بھی وہ وقتاً بوقتاً میڈیا سے بات کرتے رہتی تھی ، اور کھتی تھی کہ میں جلد واپس وطن کو لوٹوں گی اور پاناما کیس کا مقابلا کروں گی ۔ پھر 6 جولائی 2018 بروز جمعہ کو ، پناما کیس کا فیصلہ صبح کا وقت دے کر کے ، بڑی تاخیر سے شام چار بجے کے بعد جاری ہوئا ، اور ہر ٹی وی چینل نے مریم کو اور اس کے والد نواز شریف کو ایون فیلڈ اپارٹمینٹس کی جائداد کے اوپر رشوت خوری کے الزمات ثابت ہونے پہ سزا کی خبر دی ۔ بتایا گیا کہ نواز شریف کو دس سال قید اور مریم شریف کو سات سال کی قید ہوئی ہے اور بیس لاکھ پائونڈ جرمانہ عائد ہوئا ہے ۔ تب بھی یہ بیٹی لندن کے پر آسائش محل کو اپنے والد کے ساتھ چھوڑنے کو تیار ہوگئیں ۔ اگلے ہی دن دونوں باپ بیٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ، وہ جلد وطن واپس آئیں گے اور کیس کا سامنا کرینگے ۔ یوں کچھ دنوں بعد 13 جولائی کو انھوں نے واپسی کی تاریخ کا اعلان کیا ۔ کتنا دل افسردہ تھا وہ منظر ، جب مریم اپنی ماں کلثوم نواز ، جو کہ سخت علیل ہیں اور وینٹی لیٹر پہ مصنوعی آکسیجن لے رہی ہے ، اس سے 12 جولائی کو الوداعی ملاقات کی ۔ وہ یہ آخری ملاقات سمجھ کہ جب جانے لگی تب اس کی آنکھیں نم تھی ، اور غمزدہ چہره آئینے کی طرح صاف ظاهر تها . جب وہ 13 تاريخ کو پاکستان واپسی پر ، لاہور کے علام اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتری ، تو اس کو اترتے ہی اپنے والد کے ساتھ گرفتار کر کے روالپنڈی کی اڈیالا جیل منتقل کردیا گیا ۔ اور یہ باپ کی سانجھی بیٹی ، اپنے والد کی ساتھ قیدی ہوگئی ۔ اور جب یہ باتیں ہونے لگیں کے نواز شریف کو کسی اور جیل میں منتقل کرنے کا سوچا جا رہا ہے ، تب بھی مریم جھٹ سے بولی میں بھی اسی جیل میں جاؤں گی ، اور اپنے ابو کو اکیلا نہیں چھوڑو گی ۔ یہ چواليس سالہ بیٹی اب جیل میں موجود دوسری خواتین قیدیوں کو درس بھی دیتی ہے ۔

ہمارا سماج جہاں پر بیٹیوں کو صرف پرایا دھن سمجھہ کہ ، ان کو مکمل حق نہیں دیے جاتے اور ساری جائداد اور اثاثوں کا وارث بیٹوں کو ہی بنايا جاتا ہے ، وہاں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھلے ہمارے ملکیتوں کے وارث ہمارے بیٹے ہوں ، پر دکھ ، پریشانی اور مشکل لمحات کی سہارا تو بیٹی ہی ہوتی ہے ۔ جب ہم بیٹے کو ملکیت کا وارث بناتے ہیں ، تو بیٹی خود ہی ہمارے دکھ درد کی وارث بن جاتی ہے ۔ بیٹیاں بوجھ نہیں سہارا ہوتی ہیں ۔ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).