سترھواں خواب نامہ۔۔۔ کہنا بھی مشکل۔۔سہنا بھی مشکل


23 مئی 2018
یا درویش سلام سحر رمضان
واہ درویش! اگر درویش جیسی محبوبائیں یہاں کے ہیجانی مردوں کی زندگی میں بھی آ جائیں تو شاید وہ دو ٹانگوں سے باہر نکل کر مکمل انسان بن جائیں۔ ان کے تمام جسمانی و ذہنی اعضا کام کرنے لگیں تو ملک ترقی کی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔

رابعہ نے درویش کا خط دو بار پڑھا۔ ایک جملے سے ایک لمحے مسکرائی اور دوسرے لمحے اداس ہو گئی۔ وہ جملہ نہیں ایک سوال تھا اور ایک ایسا سوال جس کی تلاش میں رابعہ خود بھی جوانی سے اب عمر کی اس سہ پہرتک رہی ہے۔

وہ اپنے اندر اس کمی کو تلاشتی رہی جو ان لڑکیوں میں نہیں تھی۔ جو نارمل زندگی بسر کر رہی تھیں۔ رابعہ کو ایک مبہم سا جواب اپنے اندر مل گیا تھا، مگر اس نے اس کو قبول نہیں کیا۔ یہ وہی جواب تھا جو درویش نے تجزیہ پیش کیا ہے۔ لیکن رابعہ اس کو قبول کرتی تو تکبر بن جاتا۔ تعلی ہو جاتی۔ جو اس کے مزاج کے خلاف تھا۔

رابعہ بنیادی طور پہ ایک عام سی لڑکی تھی یہ تخلیق، یہ سفر تخلیق، یہ خلوتیں، اور اس کے ثمر۔ یہ تو رابعہ کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ یہ تو خالق کے تحفے کے سوا کچھ بھی نہیں کہ حالات و واقعات ایسے بنتے چلے گئے کہ زندگی کی ریل، اس پٹری پہ چل پڑی۔ کہ جیسے باقی سب رستے بند ہو گئے تھے۔
اب درویش کا سوال جس کا جواب درویش تو سہہ لے گا مگر باقی سب۔ ؟
کہنا بھی مشکل ہے، سہنا بھی مشکل ہے۔

یا درویش یونہی ہوا اور یونہی ہے۔ متاثرین مرد و زن دونوں ان دونوں کیفیات کا شکار بہت جلد ہو جاتے ہیں۔ یہ رابعہ کی خوبی ہے یا کمی وہ بھی نہیں جانتی۔ مگر اس کے باعث وہ عام سی زندگی، جس کی وہ بہت خواہش کرتی تھی، اس کو جی نا سکی۔

وہ جینے کی خواہش میں خامشی سے، زندگی کو سامنے کھڑے دیکھتی رہی۔ اور آخر کار ہار کر اس نے حقیقت کو جبراََ قبول کر لیا ہے۔ لا حاصلی کا حاصل سمجھ کر۔ کہ وہ جان گئی تھی، کلیہ سب کا الگ ہو تا ہے۔

رابعہ رومی سے متفق ہے اور اگر متفق ہے تو تخلیق کار کے دکھ سکھ ایسے ہی ہوتے ہیں
Woman is a ray of God. She is not earthly beloved. She is creative not created.

اس کی زندگی میں اس حقیقت کے باعث ایک خالی پن ہے مگر یو سف کے عشق کا ایسا اثر ہے کہ اس نے خلوت کی جلوت کو قبول کرنے کی بجائے جیل کے اندھیرے قبول کر لیے کہ اس میں من کا در کھل جاتا ہے۔ ملال کی تتلی سانس کے لئے ترستے مر تو نہیں جاتی۔ امید کا جگنو سچائی کی روشنی سے کبھی نا کبھی چمک تو اْٹھتا ہے۔ رات اندھیری کتنی بھی لمبی ہو اس کا دن تو ہوتا ہی ہے۔
اس نے اس کمی یا خوبی کے باعث بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ بہت درد اٹھائے ہیں مگر زندگی کو وہ اب بھی ساحل پہ کھڑی بہت امیدو حیرت سے دیکھتی ہے۔ اس کے اندر کی عام لڑکی دور سے زندگی کا میلا دیکھ کر کسی بہت اونچے پہاڑ پہ کھڑی تنہائی میں بارش سے بھیگ بھی جاتی ہے مگر کسی سے کہتی نہیں کہ اس کے من مندر میں کوئی بت پوجا کی خواہش رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتی ہے یہاں اس مقام حیرت پہ کوئی نہیں آتا۔ جو آئے گا اس کو یا دیوی بنائے گا یا دْھول۔ اوروہ عام انسان رہنا چاہتی ہے۔

سوال اتنا گھمبیر ہے کہ رابعہ بہت کچھ لکھ بھی دے تو جواب میں تشنگی رہ جائے گی۔
کیونکہ رابعہ وہ جسم نہیں ہے جس کو دوسرا جسم تسخیر کرنے آتا ہے۔ جسم اس کے لئے بہت بے معنی ہے اور اتنا اہم بھی کہ وہ اس کے ساتھ کھلوار کی ذہنی آزادی بھی نہیں دے سکتی۔ یہ وہ خاک نہیں ہے جس کو ہوا اڑا لے جائے۔ یہ وہ خاک ہے۔ جو خاک میں خاک ہونا چاہتی ہے۔

اب وہ اپنے خمیر کی تلاش بھی کھو چکی ہے کہ یہ بھی اس کے بس کی بات نہیں رہی۔
بس اب
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
اور وہ دیکھتی رہتی ہے۔ جانتی ہے کس کی دوڑ کہاں تک ہے؟ کس کی سوچ کون سے آسمان یا کس زمین کے کس پانی کی ہے؟ کون کس مادی پہاڑ پہ کھڑا ہے؟ کون کس کو جیت کر کس کو ہرانا چاہتا ہے؟
مگر خاموش سب دیکھ رہی ہے کہ یہ سب سے بڑی زبان ہے۔

بس اتنا ضرور ہے کہ جب اسے ساتویں آسمان سے اوپر والی اس گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ خود بخود اس کا دل وجود سب کنارا کر لیتے ہیں اور ہرطرف سناٹا پھیل جاتا ہے۔ خاموشی بولنے لگتی ہے۔
یا درویش، چالیس سال کے بعد۔ جمود۔
رابعہ اس سے متفق نہیں اس کا خیال ومشاہدہ کہتا ہے زندگی کا اصل حسن، تجربات کا اصل حسن، مشاہدات کا اصل حسن، اسی عمر میں پھول کی طرح کھلتا ہے۔ بشرط کہ آپ کی راہیں، اعمال، سوچ، رستے مثبت، وسیع، محبت وسکون والے ہوں۔

تب سب کچھ الہام کشف و خواب کی طرح خود بخود آپ کے سامنے کھلنے لگتا ہے۔ ریاضت بھی نہیں کرنی پڑتی، یہ پہلی ریاضتوں کا ثمر ہوتا ہے۔
اور اگر آپ مادہ پرست دنیا دار کو شاں رہنے والے ہیں۔ سب کچھ خود کرنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ خود پہ فاخر ہیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو آپ نے کہا کہ زندگی میں نئے تجربات نہیں ہوتے۔ نئے مشاہدات کا موقع نہیں ملتا۔ جمود بے سکونی۔ بجھتے دیے کی لو والی کیفیت ہو جاتی ہے اور انسان نفسیاتی مریض ہو جا تا ہے۔

یہ نفسیاتی مریض خود کو دنیا کا وہ عاقل بالغ شاطر سمجھ رہا ہوتا ہے جس کا کوئی مد مقابل نہیں۔ اور جس کا خیال ہوتا ہے کہ دنیا اس کے بنا چل ہی نہیں سکتی اور یوں قبرستانوں کے قبرستان بھرتے چلے گئے ہیں، بھرتے چلے جائیں گے۔
یہ اکثریت کی بات ہے۔ اقلیت والے تو چالیس کے بعد ہی وہ ہیرا بنتے ہیں۔ جن کو تاجوں میں سجائے جانے کی خواہش ہوتی ہے۔
یا درویش۔

کبھی مشاہدہ کیجئے گا۔ حسن بھی چالیس کے بعد اپنے اصل روپ میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ جوانی تو سب پہ نشیلی آتی ہے۔
رابعہ اجازت تو چاہتی ہے مگر ایک سوال اسے تنگ کر رہا ہے۔ کہ مرد کو تو بچے کا باپ بننے کی عورت سے زیادہ فطری خواہش ہوتی ہے۔ عورت کی خواہش اور طرح کی ہوتی ہے مرد کی اور، تو درویش پہ اس انسانی فطری خواہش کا غلبہ کیوں کر نہیں ہوا۔

رابعہ تو آج بھی اس خواہش کا خواب دیکھتی ہے۔ کیونکہ یہ بھی تخلیق کی ایک صورت ہے۔ لیکن عورت کو اس بارے میں زیادہ محتاط ہو نا چاہیے کہ وہ تخلیق تو کر سکتی ہے، مگر جینز نہیں بدل سکتی۔ جینز کی اہمیت و طاقت خواہش، اور ضرورت سے زیادہ اہم ہے۔ یہ آخرکار غالب آجاتی ہے۔

صبح مسکرانے لگی ہے۔ رات کے خواب سو گئے ہیں، دن کے بیدار ہو نے کو ہیں۔
رابعہ اب سونے کی خواہش کرتی ہے۔ اس لئے اجازت چاہتی ہے، وہ درویش کی طرح روز خواب نہیں دیکھتی۔ مگر جب اور جو دیکھتی ہے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔
صبح بخیر اے درویش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).