میں بھی پاکستان ہوں


میں نے میٹرک کا امتحان انیصد ترانوے میں پاس کیا۔ نمبر اس قدر غیر معمولی تھے کہ آرٹس میں بھی بمشکل داخلہ ملا۔ 94۔ 95 سیشن ایف اے خواجہ فرید گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں گزارا اور ان دو سالوں میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا اور پڑھائی سے بالکل لا تعلق رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیل ہوگئے۔

غرضیکہ میٹرک کے بعد سات سال ایسے ہی چھوٹے موٹے اور فضول کاموں میں گزار دیے۔ 1999 میں آکر دماغ دوبارہ گھوما اور پھر تعلیم دوبارہ شروع کرنے کی سوجھی۔ دن رات ایک کر کے انٹر کی تیاری کی اور فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس بھی کر لیا۔ والد مرحوم اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے، سے جب کالج میں دوبارہ داخلے کا پوچھا تو ان کے ماتھے پر ایک شکن نہ آئی اور اجازت دے دی (اگرچہ وسائل کافی محدود تھے) پھر بی اے کیا اس کے بعد ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا سالِ اوّل میں تھا کہ والد صاحب انتقال فرما گئے لائف انشورنس میں جاب شروع کردی اور جیسے تیسے ایم اے بھی پاس کر لیا 2006 میں بنک الفلاح نے اچھی آفر دی لہذا وہی جاب جوائن کرلی اور آٹھ سال اسی جاب میں گزر گئے اس کہانی کو یہاں تک ہی محدود رکھتے ہیں

اس کے برعکس جو میرے ہم جماعت تھے ہم عمر تھے وہ ایک عزم کے ساتھ اپنی تعلیم جاری کیے رہے کہیں رکے نہیں اپنی ترجیح اپنا ایک ہی مقصد رکھا حتٰی کے وہ جو مجھ سے بھی بہت کم عمر ہیں ان کو بھی دیکھتا ہوں وہ بھی اچھی اچھی پوزیشنز پر پہنچ گئے ہیں اور بڑے بڑے اداروں میں کام کر کے غیر معمولی معاوضہ لے رہے ہیں (اگرچہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں اور اللہ کا کروڑ ہا بار شکر ادا کرتا ہوں مگر یہاں ایسے بیان کرنے کا ایک مقصد ہے)۔

تو مجھ میں میرے ہم عصروں اور مجھ سے قدرے کم عمر لوگوں میں کیا فرق رہا۔ میں نے اپنی زندگی کے وہ قیمتی سات سال جن میں میری قوت، توانائی اور حواس اپنے عروج پر تھے غیر ضروری کاموں میں صرف کیے اپنی کوئی ایک سمت نہیں رکھی یعنی خود سے لاپرواہ رہا اور اپنی صلاحیتوں کو فضول کی سرگرمیوں میں ضائع کیا

آج جب میں اس ستر سالہ پاکستان کو دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے یہ بھی قمر بشیر ہے جس کے باصلاحیت لوگ اس کی قوت ہیں جس کے وسائل اس کیتوانائیاں اور حواس ہیں یہ تو بچپن سے ہی یتیموں کی طرح رہا کسی نے اس کیتوانائی و قوت کا خیال نہیں رکھا کوئی ایک سمت نہیں تھی، گرتے پڑتے یہ یہاں تک پہنچ گیا کہ میری طرح مڈل کلاس کا شہری بن گیا بالکل ویسا جیسا غلام عباس نے اپنے ایک افسانے اوور کوٹ میں جس جوان کا ذکر کیا تھا جو مال روڈ پر ہر شام کو بن ٹھن کر باہر نکلتا تھا جس کا صرف اوپر کا اوورکوٹ دیکھنے والا تھا اندر سے بنیان تک پھٹی پرانی ہوتی تھی ہمارا ملک بھی بالکل ایسی ہی صورتحال میں ہے یہ ستر سال کا بزرگ اوورکوٹ پہن کر دنیا کی مال روڈ پر سب کی نظروں میں بہت خوشحال نظر آرہا ہے مگر اس کے اندر کی پھٹی ہوئی بنیان اس کے ان لوگوں کی نشاندہی کرتی ہے جو یہ نہیں جانتے کہ اگلے دن کا کھانا انہیں ملے گا یا نہیں جو اپنی ہی اولاد کو موت کے گھاٹ اتارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جب ان کے پاس کھانا دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔

جب میں چائنہ اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کو دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے یہ میرا ملک بھی میری طرح اپنے ساتھ والوں اور اپنے سے بعد والوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے اور وہ بہت آگے نکل گئے ہیں اور اس کیوجہ سمت کا تعین ہے

پاکستان کے پیچھے رہ جانے میں کسی اور کا ہاتھ نہیں ہے ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں جس طرح میرے سات سال ضائع ہونے میں کسی اور کا ہاتھ نہیں میرا اپنا ہے بالکل ایسے ہی پاکستان کی اتنا عرصہ بربادی میں گزرنے کی وجہ اس کے لوگ ہی ہیں ہم خود ہی ہیں اسے اگر کسی نے لوٹا ہے تو ہم نے اس کیمدد کی ہے۔ کسی نے یہاں دہشتگردی کی ہے تو ہم میں سے ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس میں معاونت کی ہے۔ لوٹ مار، تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ ہم میں سے ہی ہیں جو جاری کیے ہوئے ہیں۔

مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی جس طرح میٹرک کے سات سال بعد میں نے دوبارہ تعلیم شروع کی اور اتنے طویل عرصہ کے وقفہ کے باوجود انٹر کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس ہوا اس کی وجہ صرف اور صرف سمت کا ایک تعین اور اپنی تمام تر توانائی کو یک سوئی کے ساتھ ایک ہی مقصد پر لگانا ہے اسی طرح ہم بطور پاکستان کی قوت، حواس اور توانائی ایک مقصد بنالیں اور یکسوئی کے ساتھ اسے حاصل کرلیں

مقصد ہمارے سامنے ہے جو چیز سب سے زیادہ ہم لوگوں میں ناپید ہو چکی ہے وہ ہے اتحاد۔ آج جس ہجوم کو ہم قوم کہہ رہے ہیں اسے اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے ہمیں اپنی اقدار بنانی ہیں ہم نے ایک دوسروں کو برداشت کرنا سیکھنا ہے ایسا کیوں ہے کہ جو لوگ کل تک انسانوں کی کمر پر سفر کرتے تھے ان کی اخلاقیات کا ہم پرچار کررہے ہیں جبکہ ہماری ہی تعلیمات سے یورپ کے لوگوں نے اپنی اقدار سنواریں ہیں۔ ہمیں کسی کی نہیں اپنی مسلم اقدار کو اپنانا ہے۔

آج ہمیں گورے کا سوری تو بہت یاد ہے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگزر نہیں یاد۔ آج کے دن یہ وعدہ کرلیں کہ ہم کوئی بھی قدم ایسا نہیں اُٹھائیں گے جس سے ہمارے ملک و قوم پر حرف آئے۔ اگر کسی کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے تو آواز اُٹھائیں، کوئی غلطی پر ہے تو معاف کردیں اور سب سے بڑھ کر اپنے ہمسایوں کی تکالیف سے باخبر رہیں صرف یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دیتی ہیں اور یہی خوبصورتی جب پورے ملک میں پھیل جائے گی تو ہمیں ایک قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور جب ایک قوم بن گئی تو پھر یہ یکسوئی کے ساتھ اپنے ملک کی ترقی کے لئے ایک ہی سمت کا تعین کرے گی جو پاکستان کے لئے دنیا کی مال روڈ پر حقیقی معنوں میں اِٹھلا کر چلنے کا باعث بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).