کیا ہم زندہ قوم ہیں؟


پاکستان آج سے اکہتر سال پہلے لاکھوں لوگوں کی جانوں اور عزتوں کی قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اور ہم نے اس کی آزادی کا پوراپورا حق ہر سال کی طرح اس سال بھی موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر، ون ویلنگ کر کےاور پاں پاں والے باجے بجا کر ادا کیا۔ اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ کیونکہ بہتری کی امید تو ہم سے کی نہیں جا سکتی۔

خطے الگ کرنے اور سرحدوں کی لکیریں کھینچنے سے قومیں آزاد نہیں ہوتیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے باوجود ہم آزاد نہیں ہوئے۔ ہم ابھی تک تعصب کے غلام ہیں پھر بے شک وہ مذہبی ہو، قومی ہو یا لسانی۔ ہم آج تک ایک قوم نہیں بن پائے۔ اور نہ ہی ہم اس آزاد ملک رہتے ہوئے انصاف اور عزت وآبرو کی حفاظت کرنا سیکھ پائے ہیں۔

میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں چھوٹے لڑکوں کی عزتیں اور زندگیاں محفوظ نہیں ہیں وہاں عورتوں اور چھوٹی بچیوں کا کیا رونا روئیں۔ خیرپور میں لڑکے کے ساتھ زیادتی اور پھر اس کا قتل کیا یہ ہمارے اسلامی آئین اور اسلامی اور اخلاقی تعلیمات کے منہ پے طمانچہ نہیں ہے۔ کیا یہ اس ملک کا آخری واقع ہے؟ کیا ہم مسلمان ہیں؟ اور کتنے معصوم اس بربریت کا نشانہ بنیں گے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو ایسے ہر واقعے کے بعد ذہن میں گھومتے ہیں۔

ہمارا خون اس وقت تو بہت کھولتا ہے جب کوئی پاکستان کے بارے میں بری کرتا ہے یا اسلام اور مسلمان کو برا کہتا ہے۔ لیکن جب ہم خود ایسے کرتوت کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہم بین الاقوامی طور پر بدنام ہیں اس وقت ہمیں ذرا سی بھی شرم نہیں آتی۔ ہم میں سے یہ منافقت کب ختم ہوگی؟ اس کا جواب بھی ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔

ہماری غیرت صرف غیر مسلموں کے ہی اسلام مخالف عمل سے کیوں جاگتی ہے؟ وہی بات کوئی اینکر ٹیلی ویژن پر بیٹھ کرے یا پھر کسی مجلس میں اس پر توہین رسالت یا توہین صحابہ کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ہاں مگر ہم سنی سنائی بات پر لاہور میں پوری عیسائیوں کی پوری بستی کو آگ لگا دیتے ہیں۔

اکہتر برس کے بعد بھی ہم لوگ روٹی، کپڑے اور مکان جیسے نعروں کا پیچھا کر رہے ہیں ہمیں عزت کی رندگی کے لیے مزید کتنی دہائیاں درکار ہیں معلوم نہیں۔ کب ہمارے بچے بغیر کسی خوف کے گھروں سے نکل سکیں گے، مائیں اپنے بچوں کو سکول بھیج کر سکون سے بیٹھ سکیں گی؟ ہم لوگ تبدیلی تو چاہتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم اس بات سے انجان ہیں کہ تبدیلی ہمیشہ چھوٹے پیمانے سے شروع ہوتی ہے اور انفرادیت سے اجتماعیت کا راستہ تہ کرتی ہے نا کہ اس کے برعکس۔

خیر یہ تو دل کا غبار تھا جو نکل گیا۔ لیکن اس جشن آزاری پر ہمیں یہ عہد تو ضرور کرنا ہے کہ ہمیں انفرادی طور پر اپنے آپ کو بدلنا ہے۔ کیونکہ معاشرہ ہمارے انفرادی اعمال کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے حصے کی برائی ختم کرے تو یہ معاشرہ بہت بہتر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).