کْتے سو رہے تھے



بارش مسلسل ہو رہی تھی ۔اور مزار پہ کتوں نے پناہ لے رکھی تھی ۔ رات کا وقت تھا اس لئے زیادہ تر کْتے سورہے تھے۔ سن اور پڑھ رکھا تھا کہ انسا ن کی موت کا وقت اس کی زندگی کا آئنہ ہو تا ہے۔ سمجھنا بہت مشکل تھا ۔ لیکن وقت نے سمجھا دیا کہ انسان کی زندگی کا پتا اس کی موت کے بعد ہی چلتا ہے۔ زندگی سانس وروح تک بس اک پہلی ہے۔
آج ایک یونیورسٹی فیلو سید فیضان جعفری نے اپنی ایک نظم آج کے دن کے حوالے سے شیئر کی تو مجھے نومبر کی وہ بارش والی رات یاد آگئی جب مزار پہ کْتے سو رہے تھے۔
نظم کچھ یو ں ہے
آج کس کی برسی ہے؟
آج اس کی برسی ہے
جس کی لاش آمو ں کی
پیٹیو ں سے نکلی تھی
آج اس کی برسی ہے

آج اس کی برسی ہے
جس کی قبر تنہا میں
دفن اک جبڑا ہے
اور جس کی آنکھو ں سے
نخوتیں ٹپکتی تھیں

آج اس کی برسی ہے
جو کہ اپنے مرنے کے
بعد اتنے سالو ں تک
ظلمتیں لٹاتا ہے
رشتہ ہائے انسان کو
پاش پاش کرتا ہے
آج بھی وہ قاتل ہے
برسرِپیکار ہے
جس کی فکر کی تپش
آج تک بھی پہنچی ہے
جس نے اپنی سطوت کے
خون رنگ ہاتھو ں سے
بے گناہ ماؤں کی
گودیاں اجاڑی ہیں
خطہ مبارک پر
بستیاں جلائی ہیں
آج بھی وہ زندہ ہے
آج بھی ہے جلوہ گر
اک سیاہ نقطے میں
رات کے اندھیرے میں
صبح ِ امن و آشتی کا
صرف منہ چڑاتا ہے
آج اس کی برسی ہے
آج اس کی برسی ہے
یہ نومبر کی رات تھی ۔ اسلام آباد میں بارش ہو رہی تھی ۔ رات کے کوئی آٹھ بجے تھے۔ فیصل مسجد پہنچے تو بارش اور تیز ہو گئی ۔
پارکنگ سے گزر ہواتو دائیں ہاتھ ایک مزار تھا ۔ سوچا صاحب مزار کو فاتحہ کا تحفہ پیش کیا جائے۔ جب میں ننگے پیڑ گھاس پہ سے چل کر مزار کے دروازے تک پہنچی تو وہ کْتوں سے بھرا ہوا تھا ۔اکثر کْتے تھک ہار کر سو رہے تھے۔ کچھ قبر مبارک کے اوپر ہی ثواب کے طور پہ آرام فرما رہے تھے۔ اک انجانا سا خوف تھا جس نے میرے قدم دروازے پر ہی روک لئے ۔اور وہیں کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھ دی۔ فاتحہ کیا تھی ، بس اک زبانی مشق تھی۔ کہ ذہین تو فلسفوں میں الجھا ہوا تھا ۔ سوچتے قدم مسجد کی اور اْٹھ رہے تھے۔ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔عشاء کی جماعت کی تکبیر نے سماں باندھا ہوا تھا ۔
لیکن صاحب مزار اور مزار کے منظر نے اندر ہلچل مچا رکھی تھی ۔ جہا ں انسان نام کی کو ئی مخلوق دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ بس کْتے سوئے ہو ئے تھے۔ میرے لئے یہ زندگی کا ایک فلسفہ تھا۔ جو مجھ پہ گزری ، وہ کیفیت تھی۔ کیف کے لئے ہمیشہ الفاظ کا دامن تنگ ہواکرتاہے۔
یہا ں دل چاہ رہا ہے اشفاق احمد کے مشہو ر جملے پہ اختتام کروں تاکہ آپ کے دماغ سے بھی سوتے ہوئے کْتے نکل جائیں
’’اﷲ ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے،،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).