اکیسویں صدی کے لیڈر کی نیلے چاند سی تقریر



صبح جب سارا پاکستان اسمبلی کے اہم ترین اجلاس کے لئے ٹی وی کے سامنے بیٹھا لمحہ لمحہ کی کارروائی پر نظر ٹکائے ان اہم لمحات کا منتظر تھا جس کے خواب کم سے کم اکیسویں صدی کی نسل کی پلکوں پر اک عرصے سے پل رہے تھے تو نوجوت سنگھ سدھو کی پاکستان آمد نے بھی خاصی دیر خوب رونق لگائی۔دوست کے حق میں بیانات اور اس کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ سدھو کی ایک بات پر میرا ذہن الجھ گیا جب اس نے کہا کہ عمران خان میں یہ طاقت ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنا لیتے ہیں۔

میں بہت دیر تک سوچتی رہی کہ وہ کیسے؟ آخر اس خوبی کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے؟ ہم جیسے بہت ہی عام عام سے لوگ چھوٹی چھوٹی محدود کامیابیوں کے خواب دیکھنے والے اور بہت ہی چھوٹے چھوٹے فیصلے کر کے بھی گھبرا جانے والے لوگوں نے سیاست سے قطع نظر عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد کے اک طویل سفر کی مسافت کے بعد اس کی کامیابی کا سورج طلوع ہوتے دیکھنے سے بہت سی انسپریشن لی،بہت سے حوصلے سیکھے، زندگی کے لئے بہت سے اہم سبق جانے۔ ہم عام انسان جو دل کڑا کر کے بھی وزارت عظمی جیسے بڑے بڑے دنیا بدل دینے والے خواب تک نہیں دیکھ سکتے کہ اس سے پہلے ہی ہمیں اپنی استطاعت اور اوقات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

ایسے بڑے خواب دیکھ لینا بھی بہت بڑا جگر اور حوصلہ مانگتا ہے پھر اس کی تکمیل کے لئے سالہا سال کی تپتی دھوپ اور بادوباراں کے سفر کی تو بات ہی کجا ہے۔مگر جس ہمت، استقامت اور حوصلے سے صفر سے شروع کر کے عمران خان نے آج اپنی کامیابی کا تاج سر پر سجایا ہے اس نے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بھی نیا حوصلہ اور نئی جرات کا رستہ دکھا دیا ہے۔اور یہاں کھلاڑیوں سے میری مراد تحریک انصاف کے سپورٹرز نہیں بلکہ زندگی کے معرکوں میں کسی بھی محاذ پر کسی بھی حالات میں کھڑی کامیابی کے لئے نبرد آزما اک نسل ہے جس کو اتنے اونچے خواب دکھانا اور پھر ان کو امر کر دینا سکھانا بھی اک اہم کام ہے۔

بدقسمتی سے تقدیر  نے ایسے لیڈر پاکستان کو بہت کم دئیے ہیں جو اپنے لوگوں میں وہ جذبات اور خواب جگا سکیں جو جاگتے اور بیدار معاشروں کا اہم ستون ہوتے ہیں، جن پر ریاستوں اور نسلوں کی تعمیر کی جاتی ہے۔

اسی سوچ اور خیال کے ساتھ میں بہت دیر تک غور و خوض کرتی رہی کہ سدھو صاحب کی اس بات کا کیا مطلب تھا۔مگر کچھ خاص سمجھ نہ پائی جب تک کہ پوری اہم ترین کارروائی کے بعد کپتان خان کی پہلی تقریر کا وقت نہ آیا۔ اسمبلی مچھلی بازار بنی تھی اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی جب ہنستے مسکراتے صدر ایوان کی تقریر کا وقت پہنچا مگر ن لیگ کے شور شرابے نے عمران خان کی ہنسی بھرے چہرے کو تیوریوں میں بدلنا شروع کیا۔

ہم شاید آج بھی الیکشن کے بعد جیسی اک مدبر اور سوچی سمجھی ، پرسکوں تقریر کے منتظر تھے ۔جب چولہے پر کھڑے بچوں کے لئے روٹیاں پکاتے میں نے عمران خان کی تقریر کا اعلان سنا تو دماغ چلنا شروع ہوا اور میں پریشان ہونے لگی کہ عمران خان کے پاس تو لکھی تقریر نہ ہوگی۔اسے تو خود اپنے الفاظ میں بات کرنے کی عادت ہے۔ اتنے شور شرابے میں اسکا دھیان تو ضرور الجھے گا۔ بولنا کچھ چاہے گا، پر بار بار بھولے گا، بار بار سوچنا پڑے گا۔ اپوزیشن نے بالکل کاری وار کر ڈالا۔ اسی لئے تو وزرائے اعظم تقاریر لکھوا کر لاتے ہیں کہ کسی بھی حالات میں خموشی سے دیکھ کر پڑھ سکیں۔اسی تشویش اور حیرت میں مبتلا عمران خان کی حقیقتا پریشانی اور ناکامی دیکھنے کے لئے تیار میں چولہا بند کر کے آئی اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔تب جا کر میں نے جانا کہ کمزوری کو طاقت میں بدلنا کسے کہتے ہیں۔

جب عمران خان شور شرابے کی پرواہ نہ کرتے دھیمے سروں میں میٹھا میٹھا بولنے کی بجائے گرجنے اور برسنے لگے تو مجھے وہ کمزوری طاقت میں بدلتی نظر آئی جسے استعمال کرنے کی اپوزیشن کی جانب سے خوب کوشش ہوئی مگر نئے وزیراعظم کے اندر کامیابی کے سکون میں بیٹھا چیتا جاگ اٹھا اور انہوں نے وہ بھرپور اور تگڑی تقریر کر ڈالی جو یقینا بہت سوں کے دل دہلا دینے کا قابل تھی۔

کم سے کم الفاظ میں ،محدود دورانیہ کی مدلل ترین تقریر جس کا ہر لفظ بولنے والے کی دیانت اور امانت کی گواہی دیتا تھا۔ وہ جذبہ، وہ جوش جس کا پرچار وہ ہمیشہ کرتے رہے ان کی آواز میں گرجنے لگا۔ ہماری نسل جنہوں نے بھٹو کا زمانہ نہیں دیکھا انہوں نے زندگی میں پہلی بار ایک وزیراعظم پاکستان کو صرف سچ بولتے اور وہ الفاظ کہتے دیکھا جو ہمارے دلوں کی آواز ہیں، وہ وعدے جو اس دھرتی کے سب کان سننا چاہتے ہیں، وہ یقین جسے لیکر قومیں مضبوط ہوتی ہیں۔

آنے والا وقت نجانے کیا لائے، ایسا عزم، ایسا یقین پاکستانی سیاست اور ریاست کے چکروں میں جانے کیا کیا پلٹیاں کھائے، کون جانے کتنے وعدے سچے ہوں اور کون کون سے پاؤں تلے یا مخالف طاقتوں اور مزاحمتوں کے قدموں تلے کچلے جائیں مگر ایک بات سچ ہے کہ اس تقریر کے وہ چند منٹ ایک دیکھنے کا نظارہ تھے، اک ایسی گونج تھی جو آنے والی دہائیوں تک ان ایوانوں میں گونجتی رہے گی، جس کی تحریر موٹی موٹی کر کے ہر تاریخ کی کتاب پر لکھی جائے گی۔تو نفرت میں یا محبت میں جس نے وہ پل نہیں دیکھے وہ یقیناً اس زمانے کا سب سے محروم شخص ٹھہرا کہ یہ اک نیلا چاند تھا پھر جانے کتنے عشروں بعد ہماری سرزمین پر نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).