حلف برداری کا آنکھوں دیکھا احوال


آج ہم اس ہال میں موجود تھے جہاں بے نظیر بھٹو نے دو مرتبہ اور نواز شریف نے تین مرتبہ ملک کے منتخب وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ 1988 کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا۔ دنیا کی پہلی خاتون سربراہ مملکت کا اعزاز حاصل کیا، مگر محض بیس ماہ کی قلیل مدت بعد اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کردی گئیں۔ نواز شریف بھی یہیں حلف لے کر گئے ان کے ساتھ بھی مختلف سلوک نہ کیا گیا۔ ایوان صدر میں آکر تاثرات زیادہ خوشگوار نہ رہے، ماضی کی یادوں سے دل بوجھل سے ہو گیا۔

تبدیلی کے نعرے نے ملکی سیاست میں ناصرف ہلچل مچا دی بلکہ حکومت بھی تبدیل کرنے کی راہ ہموار کر گیا۔ یہ الگ بحث ہے جو کہ تاریخ کا حصہ بھی بن چکی ہے کہ کون سے حالات بنے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت نے اپنا ووٹ اس نعرے کے پلڑے میں ڈال دیا۔ نتائج کو متنازع قرار دیا جارہا ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں، شفافیت برقرار رکھنے کی کوششوں کے باوجود یہ سب کچھ ماضی میں بھی مشاہدے میں آتا رہا ہے۔ اب صرف دو باتیں ہیں، حکومت بنانے والوں کو ملکی حالات پر توجہ دینا ہوگی اور اپوزیشن کی صورت اختیار کرنے والوں کو اپنی نئی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کیلئے متحد ہونا پڑے گا۔

ایوان صدر میں سجی اس تقریب میں غیر ملکی مہمانوں کی شرکت کا اعلان ہوا تھا۔ مگر پڑوسی ملک سے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو آئے اور سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے ارکان بھی مدعو تھے۔ مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر شعبوں سے وابستہ معزز مہمان آتے گئے۔ آرمی چیف نے نوجوت سدھو سے کچھ دیر بات چیت کی اور پھر انہیں گلے بھی لگایا، حلف برداری تقریب کا اہتمام بڑے منظم اور احسن طریقے سے کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے مہمانوں کو ان کی نشستوں تک رہنمائی کی گئی، ہال میں سب لوگ آپس میں محو گفتگو تھے، مگر دھیمے لہجے اور سرگوشی کے انداز میں جسے بہت اچھی طرح محسوس کیا جاسکتا تھا۔

حکمران جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا، وہ مہمانوں کا استقبال کرنے کے بجائے خود مہمانوں کی طرح کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ ایک ہلکی سے پریشانی بھی نمایاں تھی، جہاں وہ مبارکبادیں وصول کر رہے تھے، وہیں شاید ایک احساس تھا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک ہو جائے اور ملک کے نئے وزیراعظم اپنی ذمہ داریوں کا حلف اٹھا لیں۔

خاتون اول سفید لباس میں نقاب اوڑھے ہال میں داخل ہوئیں، اور پہلی قطار میں نشست سنبھالنے کی بڑھیں، وہاں پہلے سے بیٹھے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجود نے کھڑے ہو کر ان کا خیرمقدم کیا، ان کے ہمراہ ان کی صاحبزادی بھی تھیں، سب نگاہیں مرکزی دروازے پر جم گئیں تھیں، جہاں سے صدر مملکت اور نامزد وزیراعظم کی آمد ہونا تھی۔ بیٹھے بیٹھے ذھن مختلف سوچوں میں مصروف ہوگیا جیسا کہ عمران خان نے آج شیروانی کے ساتھ کیا جناح کیپ بھی پہنی ہوگی، وہ کوئی خاص لباس زیب تن کرکے آئیں گے یا نہیں۔ حلف برداری اور اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن والے روز سفید شلوار قمیض تھی، پہلے دن ویسٹ کوٹ بھی نہیں تھا، تصویر کھنچوانے کیلئے بھی انہیں مستعار لینا پڑی۔ اگر دوسرے دن کوٹ پہنا تو اس بار اسمبلی کارڈ لانا بھول گئے۔

ابھی کپتان کی ٹیم انہیں پوری طرح سے تیار کر کے نہیں لا رہی تھی، جس کی وجہ پہلی بڑی فتح اور پھر وفاق میں پہلا موقع ہے۔ عمران خان سیاسی کیرئیر میں تیسری بار ایم این اے بنے اور کبھی وزارت بھی نہیں سبنھالی، اب ان کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور تھمائی جا رہی ہے۔ اس اہم ذمہ داری کے لیے ذہنی طور پر کپتان بہت پہلے سے تیار تھے لیکن اس کو انجام دینے کا آغاز آج سے ہونے جا رہا تھا۔

عمران خان کو تبدیلی کا نعرہ سچ ثابت کرنے میں بائیس برس لگے۔ اب بھی اس تبدیلی کو عملی شکل دینا کوئی آسان کام نہیں رہا۔ ایک روز قبل پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران لہجہ ایک بار کپتان والا دکھائی دیا، آج دیکھنا تھا وہ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

ابھی یہ سب سوچ رہا تھا کہ اچانک صدر مملکت کی آمد کا اعلان ہوا، پھر دروازے کھل گئے اور اقتدار کی منتقلی کا اہم مرحلہ دیکھنے کیلئے ہم سب کی نگاہیں ایک جگہ پر ٹھہر گئیں۔ صدر مملکت آئے، حاضرین کھڑے ہوگئے، یہ اس منصب کے احترام کا تقاضا ہے۔ ساتھ میں نامزد وزیراعظم عمران خان بھی تھے دونوں اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ منتخب وزیراعظم نے حاضرین پر دائیں اور بائیں نگاہ دوڑائی لیکن کسی سے نگاہ ٹکرائی نہیں، بظاہر چہرے پر ایک سنجیدگی بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ شلوار قمیض اور شیروانی میں ملبوس تھے۔

حلف اٹھانے کااعلان ہوا، کھڑے ہوئے، اور پھر اچانک ہاتھ شیروانی کے نیچے قمیض کی جیب میں کچھ ٹٹولنے لگا، عینک نکال کر آنکھوں پر لگائی، حلف پڑھنا شروع کیا، اور پھر سب بھانپ گئے، نومنتخب وزیراعظم آج منزل پر پہنچ کر نروس تھے، اور پھر ایک کے بعد ایک لفظوں کی ادائیگی میں غلطی کی، یہاں تک کے وہ حاضرین اور پھر میڈیا کا موضوع بن گیا۔ کوئی بڑی بات نہیں لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔

صدر مملکت نے ان سے عہدے کا حلف لیا، جس میں انہوں نے ملک کے آئین اور قانون سے وفادار رہنے اور اپنے ذاتی مفادات پر ملک کے مفادات کو مقدم رکھنے کا عہد کیا۔ یہ وہ عہد ہے جسے ہر حکومت کا سربراہ پورا کرنے کی کوشش ضرور کرتا رہا ہے لیکن ماضی گواہ ہے کہ اس سے یہ حق چھین لیا جاتا رہا ہے۔ پھر نیا چہرہ اسی مقام پر حلف کے انہیں الفاظ کو حکومت کی مقررہ مدت سے پہلے دھراتے دیکھا گیا۔ ملک کی تاریخ تبدیلی کی ایک شکل حکمران کی تبدیلی کی صورت میں دیکھتی رہی، اب عوام پی ٹی آئی کے نعرے کو عملی جامہ پہناتے دیکھنے کی منتظر ہے۔

آج عمران خان وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ یہ محض ان کی خواہش نہیں تھی، ان کی سیاسی سوچ کا ایک اگلا قدم ہے جس کے بعد انہیں اپنے کئے وعدوں کو حقیقت کا روپ دینا ہوگا۔ باتوں اور دعووں کو عملی طور پر کرکے دکھانا ہوگا۔  وہ بار بار اپنی پارٹی اور عوام کے سامنے اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ اگر انہوں نے ڈلیور کرکے نہ دکھایا تو وہ بھی ماضی کا ایک قصہ بن جائیں گے۔ یہ ان کی ناکامی نہیں ہوگی بلکہ قوم کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرانے کا باعث بنے گی۔ جس سے تبدیلی کی سوچ بھی مجروح ہوگی۔ اب وہ مرحلہ آچکا ہے کہ قوم کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں رہا، وہ مزید نعروں، وعدوں اور خوابوں کا بوجھ نہیں سہار سکیں گے۔ انہیں عملی طور پر کچھ تبدیلی دکھانا ہوگی۔

آج عمران خان کو اپنا ایک دعویٰ سچ ثابت کرتے دیکھ لیا، وہ وزیراعظم بن گئے، حکومت سنبھال لی، ایک تبدیلی یہ ہے۔ وہ آگے چل کر مزید کیا کچھ کر پاتے ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے بجائے اب دیکھنا ہوگا وہ آنے والے دنوں میں کیا تبدیلی لاتے ہیں۔ کیا ان کی قیادت میں حکومت ڈلیور کر پائے گی۔

 اس تبدیلی کی پوری قوم بڑی شدت سے منتظر ہے۔ اور اس نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar