کیا نئے پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق مل پائیں گے


نئے پاکستان کا آغاز تو ہو گیا ہے۔ دیکھیں اب انجام کیا ہوتا ہے۔ ہر بندہ تبدیلی چاہتا ہے لوگ غربت، مہنگی تعلیم، پانی کی قلعت جیسے بہت سے مسائل ہیں۔ لیکن کیا نئے پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق ملیں گے؟ سوشل میڈیا پر اور مولوی صاحبان جلسوں میں جو کافر کافر کھیل رہے ہیں اس کا پاکستان کے امن پر بہت گہرا اثر ہو سکتا ہے۔ پاکستانی پرچم کے اندر سفید رنگ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں اور مذاہب کے لوگ بھی ہوں گے جیسا کے دنیا کے ہر ملک میں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔

ہم جب دیارِ غیر میں جب آتے ہیں تو سب سے پہلے ایشین ہوتے ہیں۔ پھر پاکستانی اور ہم پاکستانی ایک دوسرے کو فیملی ممبر کی طرح سمجھتے ہیں۔ ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ یہاں زیادہ تر ہمارا ملنا سکولوں میں ہوتا ہے کیونکہ ٹیچرز سکول سے باہر آکر بچوں کو والدین کے حوالے کرتے ہیں۔ اسی بہانے روز ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ گپ شپ ہوتی رہتی ہے۔ ہماری ایک دوست عطیہ بھئی روز سکول آتی ہے جو پاکستانی تھی۔ کافی سال بعد بچوں کی تعلیم پوری ہوئی اور سب بچے دوسرے سکولوں میں جانے کا وقت آ گیا۔

ہم سب بہت اداس ہوئے کہ اچھا ٹائم پاس ہو جاتا تھا۔ سب نے ایک دوسرے کو الوداع کیا تو عطیہ کہنے لگی جاتے جاتے میں آپ لوگوں کو ایک بات بتانا چاہتی ہوں جو آج تک میں نے چھپا کر رکھی تھی۔ ہم مذاقاً ہنس دیے کہ کہں ایٹم بم تو نہیں بناتی رہی وہ ڈرے ہوئے لہجے میں جب کچھ بتانا چاہ رہی تھی تو ہم سب بھی پریشان ہوگئے کہ ایسی کون سی بات ہوگی۔ آخر وہ ہمت کرکے بولی اصل میں، میں احمدی ہُوں اور پاکستانی ہم سے نفرت کرتے ہیں اس لئے اتنے سال تک آپ لوگوں سے یہ بات چھپائی کہ آپ لوگ مجھ سے بات کرنا بند نہ کر دو۔

اس کی بات سُن کے اور اُس کے چہرے کو دیکھ کر خود کو ایک گرا ہوُا انسان محسوس کیا اور خود پہ شرم آئی کہ ہم کیسے لوگ ہیں کہ ایک پاکستانی ہماری نفرت کے ڈر سے اپنا مذہب چھپاتی رہی جبکہ جس ملک میں ہم آکے رہتے وہ ایک غیر مسلم ہے لیکن ہر جگہ ایک فارم پُر کرنا ہوتا ہے جس میں آپ آزادی کے ساتھ اپنا مذہب لکھ سکتے ہو اور وہ آپ کو یا آپ کے بچے کو مذہب کے خلاف جانے کے لئے کبھی مجبور نہیں کریں گے۔

انڈیا میں مسلمانوں پر پہ ظلم ہوتا ہے اور برما میں جو حالت ہوئی ہے۔ تو ہم اور تو کچھ کر نہیں سکتے بس ہمارے مولوی پاکستان میں ریلی نکال کر گیدڑ بھبکی دیتے ہیں۔ عرب ملکوں میں یہ شیعہ سُنی کا کھیل شروع ہوا تھا تو نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا اور عرب تباہ ہوگئے ہیں۔ ایک جج صاحب کُھلے عام اقلیتوں کے خلاف نفرت سے بات کرے ہیں۔ پاکستان سب کا ملک ہے کسی کی جاگیر نہیں ہے۔ ہم پاکستان میں رہنے والے اقلیتوں کی زندگی عذاب بنا رہے ہیں۔

یورپ میں ہر جگہ پر بچوں کو قرآن پڑھانے کی سہولت میسر نہیں ہوتی ہے اس لئے مولوی صاحبان نے کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔ اور ایک ایک بچے کی سو پاؤنڈ فیس لیتے ہیں۔ اور کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو چالیس سال کا ہونے تک قرآن ختم نہ کرائیں کہ فیس بند ہو جائے گی۔ یہ نفرت بند ہونی چاہیے ہم ایسی قوم ہیں کہ یہ جانتے ہیں کہ جس خدا نے ہمیں بنایا اُسی خدا نے خواجہ سرا بنائے ہیں اور ہم ان کے ماں باپ کو مجبور کر دیتے ہیں کہ ان کو گھر سے نکال دیں اُن کی پہچان چھین لیں اور جو حالت ہم گھر میں کام کرنے والے بچوں کی کرتے ہیں۔ کیا اسی کو اسلام کہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).