نئے پاکستان کا پرانا تھر


من حیث القوم اخلاقی پستیوں کی زیریں حدوں تک گرنے کی لازوال داستان رقم کرنے کے قریب قریب پہنچ چکے لوگوں سے گفتگو کی جائے تو تھر کے معصوم پھولوں کے لہو کی باس ان کے معدوں سے ابل ابل کے دہائی دیتی ہے کہ ہاں ہم ہی ہیں وہ کرگس جن کی روزی روٹی انہی بے کفن لاشوں کی گل سڑ چکی ہڈیوں سے نکل نے والا فاسفورس ہے۔ اخبار نے لکھا کہ چار اور بچے قحط کی نذر ہوگئے، غلط لکھا۔ آٹھ مہینوں میں چار سو بچے تو وہ ہیں جو ریکارڈ پر لائے گئے۔ نہ جانے کتنے ہی اور ایسے ہوں گے جو صحرا کی گمنامیوں میں مراعت یافتہ طبقے کی دولت کی ہوس کا نشانہ بنے ہوں گے۔

اہل صحافت کا کام ہے خبر دینا سو وہ اپنی ذمہ داری تیس سیکنڈ کے ٹکر چلا کے نبھا چکے۔ اسے بھی کارپوریٹ سیکٹر کی دریا دلی کہیے وگرنہ اس مشینی دور میں کسے پڑی ہے تیسرے سے بھی آگے کے کسی درجے کی مخلوق کو ایسے وقتوں میں سپیس دی جائے جب چہار سو اقتدار کی مارا ماری کی دوڑ لگی ہو۔ سبھی کی توجہہ کا مرکز جمہوریت کی مضبوطی ہے خواہ اس کے لیے جمہور کو اپنے خون سے ہی آبیاری کیوں نہ کرنا پڑے۔ پرانے پاکستان میں تو یہی سب ہوتا رہا ہے۔ نئے کا منشور بھی تھر کے حوالے سے اسی بد قسمت خطے کی طرح قحط کا شکار ہے۔

کسی کے منہ سے دو حرف تسلی تک کے نہی نکلتے کہ خواہ مخواہ اردو خرچ نہ ہوجائے۔ ویسے بھی ان بھوکے ننگے لوگوں کے پاس نہ تو سوشل میڈیا ہے کہ اس پر ان الفاظ کی پذیرائی ہو اور نہ ہی کیبل ٹی وی نیٹ ورک کہ وہ ہمدردی کے کے جذبات سے آشنا ہوسکیں۔ جب انہیں پتا ہی نہی چلنا کہ کوئی ان کا درد بھی رکھتا ہے تو پھر دنیا دکھاوا کیا کرنا۔ وزیراعظم کا انتخاب ہوچکا۔ حلف بھی اٹھالیا گیا۔

دیکھنا اب یہ ہے کہ وہ نعرہ جو انسانوں کی فلاح کو مرکز بنا کے لگایا گیا تھا عمران خان صاحب کس حد تک وفا کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا تھر کے لوگوں کا شمار انسانوں میں کیا بھی جاتا ہے یا نہی کیونکہ انتخابی تحریک سے لے کر حلف برداری تک، نہ تو کسی جیالے کو ان لوگوں کا خیال آیا اور نہ ہی ووٹ کو عزت دینے والے تین تین باریاں لے کر ان سے شناسائی پیدا کرسکے۔ خان صاحب کا البتہ منشور تو یہی ہے کہ وہ ٹھاٹ باٹ کی تام جھام پر نہی بلکہ انسانوں پر انویسٹمنٹ کریں گے۔

ایسا کرنے میں حرج بھی کیا ہے۔ محض سولہ لاکھ لوگ ہیں اور بائیس ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی معدنیات سے مالا مال ان کی جاگیر۔ کام بس اتنا سا کرنا ہے کہ بکھرے قبائل کو منصوبہ بندی سے قصبوں میں بسانا ہے۔ کیونکہ بے آب و گیاہ دھرتی پہ بکھرے ہوئے لوگوں تک وسائل کی فراہمی ناممکن سی بات ہے۔ تھر کے اضلاع کو ٹیکس فری زون بنا کر انڈسٹریل زون بنا دیا جائے۔ سولہ لاکھ لوگوں کے لیے ایسے سو قصبے بنادیے جائیں جہاں روزگار کے مواقع ہوں اور سہولیات مہیا ہوں۔ انڈسٹری ہوگی تو پانی کا بندوبست بھی ہوجائے گا اور صحت و تعلیم کا معیار بھی بلند ہوگا۔ تھر کے لوگوں کو بھیک نہی چاہیے۔ وہ خوددار لوگ ہیں۔ انہیں سہولیات ملیں تو اس دھرتی میں اتنا پوٹینشل ہے کہ ملک کی لائیو سٹاک انڈسٹری کو نہ صرف اپنے پاؤں پہ کھڑا کردے بلکہ بہترین زرمبادلہ سے قومی خزانے کو دوام بخش دے۔

اگر ممکن ہو تو دریائے سندھ سے، جو اس خطے سے کوئی زیادہ دور نہی بہتا، ایک نہری نظام نکالا جا سکتا جو نہ صرف یہاں کا معیار زندگی بدل دے گا بلکہ وہ پانی جو سمندر برد ہو رہا ہے اس کو مصرف بھی مل جائے گا۔ اگر ایسا ممکن ہے تو یہ کالا باغ ڈیم سے بڑا پروجیکٹ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ کالا باغ پر جو تحفظات ہیں وہ اس پروجیکٹ پر نہی ہوں گے۔ لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب اقتدار کو ایوانوں تک ان معصوم بچوں کی خاموش لاشوں کی آہیں اور سسکیاں پہنچ سکیں۔ تبدیلی کا زمانا ہے۔ کاش کہ ہماری سوچ بدل سکے اور نئے پاکستان کے ساتھ ساتھ ایک نیا تھر آباد ہوسکے۔

میں ہوں مقروض تھر اور میرے گھر میں آگ تھر کی ہے
میرے کپڑے ہیں تھر کے اور میری پاگ تھر کی ہے

ہے تھر پیاسا، زمیں پیاسی، شجر پیاسے
اسلام آباد ہوں میں، میری آب و تاب تھر کی ہے

ریشم کی سڑک کا شور تو ہر سمت اٹھتا ہے
نہی اس بیچ گر کچھ یاد، تو وہ یاد تھر کی ہے

میں غاصب مگر آذاد پھرتا ہوں فضاؤں میں
وہاں بن بیڑیوں کے نسل ساری قید تھر کی ہے

یہاں اس موت کی وادی میں ہم انساں نما کرگس
سبھی کو فکر شہرت کی، کسے یاں لاگ تھر کی ہے
عمر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).