تبدیلی سے نہیں، تھپڑ سے ڈر لگتا ہے صاحب


کچھ دن پہلے سندھ کے بڑے شہر کراچی کے علاقہ ناظم آباد سے بیچ روڈ کی ایک ویڈِیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی اور بعد میں اس نے الیکٹرانک میڈیا میں بھی سرخیوں کی جگہ لے لی۔ اس میں پی ٹی آئی کا رکن، کراچی پی اےس۔ 129 سے نو منتخب ایم پی اے عمران شاہ ایک بزرگ آدمی کو گاڑی سائیڈ پہ نہ کرنے پر، جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا، ساتھ ہی اس کے ہتھیاربند گارڈ اس کو ڈرا دھمکا رہے تھے۔ اس بزرگ آدمی جس کی شناخت داؤد چوہان کے نام سے ہوئی، اس کو عمران شاہ زور زور سے تھپڑ مار رہا تھا۔ عمران شاہ شاید یہ سمجھ بیٹھا کہ اب تو حکومت ہماری جماعت، پاکستان تحریک انصاف کی ہے، تو کیوں نہ اپنی زور آزمائی عوام کے اوپر ہی کر ڈالیں۔ پر سوشل میڈیا کہاں چپ بیٹھنے والا تھا، ایک سے ایک اسٹیٹس پہ سخت تنقید کی گئی اور پوچھا گیا کہ کیا یہ وہ تبدیلی ہے جس کا عمران خان پچھلے پانچ سالوں سے نعرہ لگا رہے تھے؟ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے عمران شاہ یہ گانا گنگنا رہے ہوں کہ، روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے۔

جیسے ہی ویڈیو وائرل ہوئی تو باقی سیاسی جماعتوں نے اس پہ بھی سیاست کرنا شروع کردی، جیسے کہ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ جب کہیں کوئی حادثہ ہو یا کوئی اور ناخوشگوار واقعہ ہو، ہر سیاسی رہنما اپنے سیاسی پتے پھینکنا شروع کردیتا ہے، خیر اب تو یہ سیاسی روایت کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ تو داؤد چوہان کے سب ہمدرد بن گئے اور پیپلزپارٹی کی خواتین ایم پی اے اور سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی، سیدہ شہلا رضا نے بھی پر زور مذمت کی اور کہا کہ یہ غنڈہ گردی نہیں چلے گی۔ ساتھ ہی ایم کیو ایم کی قیادت نے بھی تھپڑ کھانے والے بزرگ کے ساتھ خوب ہمدردی کا اظہار کیا، یہاں تک کہ وہ تو اس بزرگ کے گھر جا کے پہنچے۔

تب ایم پی اے عمران شاہ نے بھی ہوش کے ناخن لیے کہ یہ کیا ہوگیا، اور اپنی ویڈیو پیغام میں کہا کہ، یہ آدمی مجھے نازیبا الفاظ بول کہ تنگ کر رہا تھا، تب ہی میں نے اسے لگاتار زور سے تھپڑ مارے، لہذا میری کوئی غلطی نہیں، میں بے قصور ہوں اور صادق و امین بھی ہوں، جو کہ پی ٹی آئی کا ہر رکن آج کل ہے۔ مجھ تو گمان ہے کہ، جہانگیر ترین بھی تھوڑا بہت صادق و امین باقی ہے، تبھی تو اس نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پنجاب کے اعداد و شمار پورے کرنے کے لیے بھاگ بھاگ کے آزاد منتخب ارکان کو جمع کیا اور پی ٹی آئی کا جھنڈا پہنایا، ورنہ کسی نا اہل کی کیا مجال کہ کسے جمہوری عمل میں یوں دخل اندازی کر سکے؟ خیر میرا موضوع جہانگیر ترین نہیں، بلکہ عمران شاہ ہے، جس نے سڑک بیچ، تبدیلی دکھا کے عوام کو پریشانی میں ڈال دیا۔

پھر بدھ کے دیر رات کو عمران شاہ نے کراچی ڈویزن صدر فردوس شمیم نقوی کے ہمراہ داؤد چوہان کے گھر جا کہ معافی نامہ طلب کیا۔ شروع میں تو یہ بیانات سامنے آنے لگے کہ پی ٹی آئی مثبت تبدیلی اور نئی پاکستان میں عدل و انصاف کی جھلک دکھاتے ہوئے، ایسے شخص کی پارٹی رکنیت معطل کر دے گی جو بیچ سڑک میں بھی مار پیٹ کی سیاست میں یقین رکھتا ہے۔ پر یہ نہ ہو سکا، یہ تبدیلی آتے آتے کہیں سیاسی مفاہمت کے آڑے آگئی، اور عمران شاہ کو اپنی جگہ پہ بحال کر دیا گیا۔

بھلا ہو ہمارے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کا، جو ایک طرف تو عوام کی فلاح و بہبودی کے لیے ڈیم بنا رہے ہیں اور ساتھ میں ہی انھوں نے عمران شاہ کی اس حرکت کا ازخود نوٹس لیا اور تین دنوں میں جواب طلب کیا ہے، ہم بھی کیا یاد رکھیں گے کہ ہمیں ایسا چیف جسٹس ملا، جس کی نظر چاروں طرف ڈوڑتی ہے، اور وہ چھوٹے بڑے مسائل پہ خود ہی نظر رکھتے ہیں، جیسا کہ وہ ڈیم کے لیے جمع ہونے والے چندے کی نگرانی بھی خود کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی بھی بڑے جذباتی ہیں، زیادہ دور نہیں انتخابات سے پہلے انتخابی مہم کا جائزہ لیں تو یاد آئے گا کہ، پی ٹی آئی کے کچھ کارکناں نے مل جل کے ایک بے زبان اور جانوروں میں سب سے مظلوم سمجھے جانے والے ایک گدھے کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ انھوں نے اپنی مخالف سیاسی جماعت کے نام لکھ کر ایک بے قصور گدھے پہ بہت تشدد کیا اور اس کے آنکھوں اور ٹانگوں میں سے خون بہہ رہا تھا، اور یوں وہ گدھا اسی تشدد کے باعث دم توڑ گیا۔ پر پی ٹی آئی والوں نے کوئی تبدیلی نہیں دکھائی اور کوئی بھی ایسا بیان جاری نہیں ہوئا جس میں کہا گیا ہو کہ کسی بے زبان جانور کو مارنا بھی ایک جرم ہے۔

اب تو وزیراعظم بھی عمران خان بن چکا ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت ہے، ساتھ ہی صدر بھی ان کا آنے والا ہے۔ ان کی تبدیلی کہ نعروں اور گانوں نے عوام میں اس قدر جگہ بنالی ہے کہ وہ تو سمجھ چکے ہیں کہ اب دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی، رشوت خوری صفر نمبر پہ آجائے گی، اور ہر ادارہ بنا کسی سیاسی مداخلت، مکمل میرٹ پہ کام کرے گا اور عوام کی ایک پائی بھی اپنی جیب میں نہ ڈالے گا۔ پاکستان مدینہ ریاست کے طرز عمل پہ چلتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والے سو دنوں میں معلوم ہو جائے گا، پر ان انصافیوں سے کوئی یہ جا کے کہے کہ عوام کو تبدیلی سے نہیں تھپڑ سے ڈر لگتا ہے، جو بنا جواز ان کی گال پہ تبدیلی کے نام سے پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).