سفید پوشوں کی عیدِ قرباں


آج صبح بچوں کے سکول اور میاں کے دفتر جانے کے بعد کچن سمیٹ کر حسب معمول اپنا چائے کا کپ تھامے میں لاؤنج میں آ بیٹھی۔ چونکہ یہ وقت ذرا فراغت کا ہوتا ہے تو میں چائے پینے کے ساتھ ساتھ اپنا موبائل دیکھتی ہوں۔ عموماً میں ناشتے کے ساتھ چائے نہیں پیتی، ناشتے کا کام ختم کرنے کے بعد سکون سے بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے موبائل استعمال کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری ہوگی کہ ڈور بیل ہوئی، دیکھا تو وہ رشیدہ تھی۔ رشیدہ کام والی ماسی ہے، اس نے تقریباً سال بھر میرے گھر کام کیا اور کوئی دو ماہ پہلے کسی وجہ سے وہ سب کے گھروں کا کام چھوڑ کر اپنے گاؤں چلی گئی تھی اور کئی روز بعد واپس آئی تھی اور میرے پاس واپس کام کا پوچھا مگر اس اثناء میں میں کسی دوسری ماسی کا بندوبست کر چکی تھی۔

اب وہ کوئی دو چار گھر چھوڑ کے کہیں کام کرتی ہے کبھی کبھار نظر بھی آ جاتی ہے، البتہ اس سے پہلے بطور خاص ملنے نہیں آئی۔ حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے کہا باجی میں آپ سے عید لینے آئی ہوں تو میں بولی بھئی یہ عید تو گوشت والی ہوتی ہے انشاء اللہ تمہیں تمہارا حصہ ضرور دوں گی۔ مگر وہ کہنے لگی گوشت تو مل ہی جائے گا لیکن مجھے عید بھی چاہیے یہ تو میرا حق ہے میں اب آپ کے ہاں کام نہیں کرتی تو کیا ہوا آپ میری باجی تو ہو نا میں تو لڑ کے آپ سے عید لوں گی۔ اب بھلا میں اور کیا کہتی کچھ پیسے اس کے ہاتھ میں تھمائے اور وہ یہ کہتی چل دی کہ اب وہ عید والے دن گوشت لینے آئے گی۔

عید کا دن بھی بڑا پر رونق ہوتا ہے، صبح سویرے سے لے کر رات گئے تک مصروفیت ہی مصروفیت اور خوب گہما گہمی رہتی ہے۔ سب گھر والے مل جل کر کام کرتے ہیں گوشت سمیٹنا، حصے کرنا، پیکٹ بنانا اور بانٹنا۔ بڑوں سے لے کے بچوں تک سبھی اس میں بخوشی شریک رہتے ہیں۔ اور پھر مہمانوں کی آمد و رفت اور مزے دار کھانوں کی تیاری بھی تو ہوتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دروازے پر مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی، چھوٹے چھوٹے بچے جو ”گوشت ہے؟ “ کی صدا لگاتے ہیں اور ان میں سے بعض تو اتنے شرارتی ہوتے ہیں کہ ایک ہی گھر میں کئی کئی بار گوشت لینے آتے ہیں۔

رشیدہ اور یہ بچے اپنا حق جتا کے عیدی اور گوشت وصول کرنا جانتے ہیں مگر کئی لوگ اور کئی بچے ایسے بھی ہیں جو ہیں تو حقدار مگر ان کی عزت نفس انہیں ہاتھ پھیلانے سے روک لیتی ہے۔ عید کا دن ان کے لئے خوشی کے بجائے پریشانی بن کے آتا ہے اور شاید کسی عام دن کی نسبت انہیں عید کے روز اپنی خواہشات کو کہیں زیادہ کچلنا پڑتا ہے اور کئی گنا زیادہ صبر کرنا پڑتا ہے۔ تھوڑی سی کوشش کریں تو بآسانی ان تک پہنچا جا سکتا ہے اور ان کی مدد کی جا سکتی ہے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کو بھی عید کی خوشی پہنچائی جاسکتی ہے۔

جو لوگ آپ سے مانگنے آئیں انہیں بھی دیجیے مگر وہ لوگ جو کسی کے آگے سوال نہیں کرتے ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھئیے اور انہیں ضرور دیجئے۔ عموما لوگ اپنے زکوۃ صدقات یا کوئی اور امداد انہی لوگوں کی کرتے ہیں جو اپنی مجبوری بیان کرکے مدد مانگتے ہیں، مگر افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اکثر و بیشتر یہ سچ نہیں ہوتا، اگرچہ اللہ تعالی ہمیں ہماری نیت کا اجر دیتا ہے مگر مزید بہتر ہے کہ کچھ تحقیق کرکے ایسے لوگوں کی مدد کی جائے جو دست سوال دراز نہیں کرتے تاکہ ان کی جائز ضرورت پوری کی جاسکے اور ثواب حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو اس بات کی بھی تسلی ہو کہ آپ کی دی گئی چیز واقعی حقدار تک پہنچ گئی ہے۔

عام دنوں میں بھی اور خاص طور پر عید کے روز انہیں ضرور یاد رکھیں۔ گوشت کی تقسیم اگرچہ مکمل طور پر قربانی کرنے والے کی منشا پہ ہوتی ہے مگر یقیناً یہ بہت افضل ہے کہ کوشش کی جائے زیادہ سے زیادہ گوشت غرباء میں تقسیم کیا جائے۔ کئی گھروں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ گوشت بانٹنے کے لیے بہت چھوٹے چھوٹے پیکٹ بنائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ گھروں میں گوشت پہنچایا جا سکے۔ مگر بہتر طریقہ یہ ہے کہ کئی گھروں میں تھوڑا تھوڑا گوشت دینے کے بجائے کسی ایک گھر میں اچھی مقدار میں دے دیا جائے۔

مثال کے طور پر ایک کلو گوشت کے تین یا چار پیکٹ بنانے کے بجائے وہ ایک کلو گوشت کسی ایک گھر میں دے دیا جائے تاکہ اس کے تمام افراد شکم سیر ہو پائیں۔ بہرحال طریقہ کوئی سا بھی ہو نیت اور مقصد تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ بس یہ خیال ضرور رہے کہ جو اپنی زبان سے کہہ کر ہم سے اپنا حق نہیں مانگتے، جو ہم پر یہ مان نہیں رکھتے کہ ہم سے لڑ کے اپنی عید لے لیں گے، انہی کا احساس ہم نے کرنا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں عید کی خوشیوں میں شامل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).