جب الفاظ اپنی حرارت کھو بیٹھے


ملک کے بائیسویں وزیراعظم کے حلف اٹھاتے وقت پورا مجمع دم سادھے بیٹھا تھا۔ خاموشی کا یہ عالم تھا کہ اڑتی ہوئی مکھی کی بھنبھناہٹ بھی صاف سنائی دیتی۔ جب وہ حلف کے الفاظ دہراتے ہوئے اٹکے اور ہنس کر گزر گئے۔ جب سے ملک کے نو منتخب وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کی تقریب دیکھی تب سے داغستانی شاعر رسول حمزہ توف کا ایک قول سامنے آرہا ہے۔ ’بیٹا ماں کی زبان بھول جائے یہ ایک بددعا سمجھی جاتی ہے‘۔ لیکن ساتھ ہی مجھے ایک مہربان خاتون یاد آئیں جنہوں نے کوسنا دیا تھا کہ ’خدا کرے یہ جس قوم کا حکمران بنے اس کی زبان بھول جائے۔ ‘ معلوم نہیں وہ خاتون کیوں غصے میں تھیں لیکن ان کا کوسنا ٹھیک ہوتا معلوم ہوا جب ہمارے دھرتی ماں کے حکمران اپنی قومی زبان میں حلف لیتے وقت اٹکتے نظر آئے۔ اٹکن اور پھر اس پر مسکراہٹ کے ساتھ درستی کے باوجود الفاظ ٹھیک سے ادا نہ کر سکنا شاید نروس تھے تب یا شاید کسی کے پیچھے پیچھے پڑھنا ان کے اسٹینڈر کے برعکس تھا۔

بہرحال رسول حمزہ توف اس بات پر بس نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ’جو شخص اپنی ماں بولی کا احترام نہ کرے اس کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں رہ جاتی‘۔ خیر وہ رسول حمزہ توف ہیں کہہ سکتے ہیں۔ میں اور آپ ایسی بات سوچ کر بھی اپنے حکمران کی توہین کے مرتکب ہرگز نہیں ہو سکتے۔ غلطی ان کی نہیں وہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اگر اردو رواں نہیں تو کیا ہوا۔ مشہور ہے کہ قوم انگلش نہیں جانتی اور حکمرانوں کو اردو نہیں آتی۔ ویسے صدر صاحب کا شکریہ جو انہوں نے ایوان صدر میں اردو کو رواج دیا۔ صدر صاحب کی اردو ’وہ عطر دان سا لہجہ میرے بزرگوں کا‘ لگا۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے مجمع میں قومی زبان کا کوئی سرپھرا پرستار موجود نہ تھا نامعلوم کیا اٹھا کر پٹخ دیتا۔

غلط ادائیگی پر بعض اہل زبان بہت بھڑک جاتے تھے۔ جیسے میرے محلے کے پروفیسر، لفظِ غلط کے ’لام‘ پر جزم پڑھنے پر اچھی خاصی سنا دیتے ہیں۔ ایک تقریب میں تو مقرر کو اتنا ڈانٹا کہ وہ تقریب چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔ خیر کل جب حلف کی تقریب سکرین پر چل رہی تھی ہمارا چھوٹو ہنس ہنس کر دہرا ہو رہا تھا۔ اس کا دس کھٹکھٹوں پر مشتمل قہقہہ جب رکا تو میں نے پوچھا: کیا ہوا بھئی ہنس کیوں رہے ہو؟ بھیا انہیں اردو پڑھنی نہیں آتی۔ دیکھا نہیں آپ نے وہ کیسے اٹک رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی وہ پھر سے ہنسنے لگا۔ ارے اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ہو جاتا ہے۔ اتنی بڑی تقریب، اتنے بڑے بڑے لوگ، ہاں لیکن میں تو نہیں پھنستا۔ ہمارے اسکول میں بھی تو ہوتا ہے پروگرام، اس میں صدر بھی ہوتے ہیں بڑے مہمان بھی۔ مجھے کوئی پڑھاتا بھی نہیں یہ تو قیامت کو قیادت، اور پھر وہ قہقہے لگانے لگا۔

اب اسے کون سمجھاتا کہ دال میم میں نہ پھنس یہ قیادت، قیامت ہی تو ہے۔ دنیا کے خوبصورت وزراء میں شمار ہونے لگے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم ایماندار ہیں اور نیت بھی ٹھیک ہے۔ یہ میں نے سن رکھا ہے۔ خدا کرے وہ قوم کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں۔ ویسے یہ زبان کا مسئلہ صرف ان کا نہیں بحیثت قوم ہمارا مسئلہ ہے کہ رابطہ عامہ کی زبان ہمیں نہیں آتی۔ اجنبیت سی ہے۔ ہمارے ہاں تو اولاد کے صاف اردو بولنے پر ماں باپ کے دل میں یہ سوچ کر ہول اٹھنے لگتے ہیں ’شاید اس کی انگریزی اچھی نہیں، اسی لیے انگریزی الفاظ کا ٹانکا لگائے بغیر صاف سیدھی اردو میں پورے پورے جملے بول رہا ہے، اب اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ ویسے زبانیں تو بے زبان ہوتی ہیں ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔

بھائی لوگ کہتے ہیں کیا ہوا اگر الفاظ کی ادائیگی میں غلطی ہوگئی۔ ایک دو الفاظ کا زبان پر نہ چڑھنا یا بھول جانا بشری تقاضا ہے۔ اس پر تنقید کی بجائے وطن عزیز کی ترقی کے لیے ان کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ داغستانی شاعر پھر سے یاد آگئے کہتے ہیں: ’اگر دنیا میں لفظوں کا وجود نہ ہوتا تودنیا ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہے۔ ‘ امید کی جانی چاہیے کہ منتخب وزیر اعظم سماجی و ثقافتی میراث کے خزانے کی حفاظت کرتے ہوئے غلطیوں سے پرہیز کریں گے نہیں تو یقین رکھیے کہ ”یوم قیادت“ اور ”خاتم النبیولین“ جیسے الفاظ سے علم و حکمت کے دیوان ضرور مرتب ہو جائیں گے۔ حلف اٹھانے کے بعد پاکستانیوں کی امیدوں کا رخ مکمل طور پر خان صاحب کی طرف ہے۔ انہوں نے ڈاکوؤں، لٹیروں کو نہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اعلانات کر رکھے ہیں۔ قوم کے امیدوں کے مرکز جناب وزیراعظم ہیں۔

خدا نہ کرے عوامی فلاح کے اعلانات بقول شخصے محبوب کے وعدے ثابت ہوں۔ ایسا نہ ہو وہ بولیں ’میں اپنے قول کا مالک ہوں چاہوں تو اس کا پاس رکھوں اور چاہوں تو اسے نظر انداز کر دوں‘۔ خان صاحب! جو خوش کن اعلانات کیے، جو خواب دکھائے خدا را ان پر پانی نہ پھیریے گا۔ قوم کی امیدوں کو باؤنسر مت ماریے گا۔ خدا آپ کی حفاظت فرمائے۔ باقی لفظی غلطیاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).