عمران خان کی بطور وزیراعظم پہلی تقریر


‘وزیراعظم پاکستان عمران خان‘ یہ الفاظ جہاں عمران خان کے خواب کی 22 سالہ جدوجہد کا نیتجہ ہیں وہاں ان کی ذمے داریوں میں بھی اضافہ کرگئے ہیں۔

19 اگست کی رات کو سابق کرکٹر اور چئیرمین تحریک انصاف نے بطور وزیراعظم پاکستان پہلی تقریر کی۔ جو 61 نکات پر مشتمل تھی۔ خان صاحب نے اپنی جامعہ حکمت عملی عوام کے سامنے پیش کی اور پاکستانیوں سے تعاون کی درخواست کی۔ وزیراعظم کی تقریر کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق وہ پاکستان کو دہشتگردی سے پاک کرتے ہوئے اسی پرامن ریاست بنائیں گے۔ ملک میں معاشی انقلاب لائیں گے۔ ہمسائیوں سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے خارجہ پالیسی کو مستحکم کریں گے۔ ملک کا لوٹ ہوا پیسہ واپس لائیں گے۔ ٹیکس کی ادائیگی کو یقینی بنائیں گے۔ پاکستان کو کرپشن کی غلاظت سے پاک کرتے ہوئے وطن عزیز کی گلیوں کو ہر قسم کے کچرے سے پاک کردیں گے۔ نوجوانوں کا مستقبل سنواریں گے۔ بے روزگاروں کو ایک کروڑ نوکریوں اور بے گھر افراد کو 50 لاکھ گھر دیں گے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف خود سادگی اپنائیں گے بلکہ اپنی کابینہ کوبھی اس کا تابع کریں گے۔ وزیراعظم ہاوس کو جدید طرز کی یونی ورسٹی بنائیں گے۔ بیوروکریسی میں بہتری لائیں گے۔ جہوری اداروں کو مستحکم کریں گے۔ صحت عامہ اور تعلیم پر خاص توجہ دینگے۔ بینادی ضرورت کو پورا کریں گے۔ انہوں نے ڈیم کی تعمیرات پر زور دیا خصوصا بھاشا ڈیم بنانے کے لئے پرعزم نظرآئے۔ موسمی تبدیلی کے تحت شجرکاری کرنے کا کہا۔ بلدیاتی نظام، عام آدمی کے حالات، مدرسے کے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا، اسٹرئیٹ چلڈرن بیواوں و ضروت مندوں کا خیال، سیاحت کو فروغ، سماجی جرائم کی روک تھام، کراچی، بلوچستان اور فاٹا کے مسائل کا حل پر تفصیل سے گفتگو کی، نیشنل ایکشن پلان پرمزید کام کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے عام عوام کو اپنی ٹیم کہتے ہوئے ان سے تعاون کی اپیل کی۔

خان صاحب چونکہ کامیاب کپتان رہے ہیں لہذا انہوں نے اپنی ٹیم کا مورال بلند رکھنے کے لئے ان سے کہا کہ گھبرانا نہیں ہے بس کام کرنا ہے۔ یہ تو تھے وہ نکات جس پر کام کرنے کے لئے وہ بہت پرعزم نظرآئے۔ اگر چہ وزیراعظم کی پہلی تقریر بہت جامعے تھی مگر نہ جانے کیوں گلگت بلتستان کو بھول گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ جو وعدے کر چکے ہیں انہیں وفا کیسے کریں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ خان صاحب کے مخالفین انہیں یکسوئی سے کام کرنے دیں گے؟ ابھی سے سوشل میڈیا پر تو بعض صارفین نے ان کی تقریر کو شیخ چلی کے سپنے کہہ کر مذاق اڑایا ہے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ خان صاحب سے تنقید برداشت بھی نہیں ہوتی ہے۔ ہم سب نے ہی ان کی 26 جولائی اور 18 اگست کی تقاریر بھی دیکھ رکھی ہیں۔ 26 جولائی کی تقریر بہت متوزان تھی جبکہ 18 اگست کی تقریر اس کے برعکس تھی۔ اس تناظر میں چلیں مان لیا خان صاحب اخراجات کو قابو کرسکتے ہیں مگر کیا وہ اپنا غصہ قابو کر پائیں گے؟

یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ ان کی تقریر سن کر حوصلہ ضرور ملا ہے۔ یہاں ایک جذبہ بیان کرتی چلوں خان کی تقریر سنے کے بعد میری والدہ نے ان کا صدقہ نکالا اور ساتھ یہ بھی طے کیا کہ اب وہ روزانہ اپنے وزیراعظم کی نصحت و سلامتی کے لئے اس سلسلے کی پابندی کریں گئیں۔ خان صاحب یہ ایک خاتون نہیں بلکہ اس ملک کی ہر ماں، بہن، بیٹی، نوجوان، جوان، بچہ، بوڑھا غرض کے ہر پاکستانی آپ سے گہری امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ اگرچہ آپ نے پرامید تقریر کرکے اپنے چاہنے والوں میں تو اضافہ کیا ہی ہے مگر اپنے دشمنوں کی لسٹ کو بھی مزید طویل کردیا ہے۔

اللہ کرئے کہ آپ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں جن کا اظہار آپ نے 61 نکات میں کیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب اس بات کو یاد رکھیں کہ اقتدار کوئی کرکٹ میچ نہیں ہے کہ اگر ایک ہار گئے تو دوسرے میں جیتا جاسکتا ہے۔ آپ کو اللہ نے بہت اہم ذمے داری عطا کی ہے جبکہ لوگوں کا خوف آپ نے ہی نکالا ہے۔ آپ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ نوازشریف کی کرپشن کے خلاف 126 روز کا دھرنا دے چکے ہیں۔ اس ملک کے عوام میں اپنا حق طلب کرنے کا شعور بیدار کرچکے ہیں۔ لوگ آپ سے محبت نہیں بلکہ عشق کرنے لگے ہیں اگر اللہ نہ کرئے آپ ایسا نہ کرسکے جس کا ارادہ 19 اگست 2018 کی رات کو کرچکے ہیں، تو عشق اپنی قمیت مانگ سکتا ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر۔ پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).