صحافت،کھانا اور چمچہ گیری


ھمارے مُلک کے ایک نامور صحافی اور اینکر نے سمجھو ایک “دھماکے دار” خبر دی کہ نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم جناب خان صاحب نے جب وزیر اعظم کے دفتر میں قدم رنجہ فرمایا تو انہوں نے سابقہ وزیر اعظم جناب نواز شریف کے اخراجات کی تفصیل طلب کر لی اور عملہ سے پورے بہی کھاتے ووچر لانے کا حکم دے دیا۔ عملے کے اراکین نے کہا جناب میاں صاحب کا تو ادھر کوئی کھاتہ نہیں ھے۔ کیا مطلب؟ جناب دراصل وہ سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے ۔ اور ان کو کُچھ لیڈران کی طرح مفت بری کی عادت نہیں تھی۔ عملے کے ارکان نے ساری تفصیل بتا دی۔یہ تھی وہ “دھماکے دار “ خبر کا خُلاصہ۔

اس سارے معاملے پر سارا دن سوشل میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر وہ دھماچوکڑی مچی الامان الحفیظ!اس خبر کو بریک کرنے والے صحافی محترم نے کُچھ عرصہ پہلے بھی ایک کالم لکھا تھا کہ جب میاں صاحب کو گرفتار کیا گیا اور اُن کو جیل میں ڈالا گیا تو بقول صحافی کے ان (صحافی) کی والدہ غمگین ھو گئیں کھانا پینا چھوڑ دیا اور دوائی تک پینا چھوڑ دیا اور کہتی رہی کہ ظالموں نے “بچے” کو جیل میں ڈال دیا ۔ اگر والدہ محترمہ نے واقعی جیل ڈالنے والوں کو ظالم کہا تو عرض ھے کہ یہ فیصلہ عدالت کا ھے اور ان کے فیصلے کو “ظلم” کہنا اور ظالم کہنا غالباً توہین عدالت ھوسکتی ھے۔ اور توہین عدالت کی سزا اگر نہال دانیال طلال سے پوچھ لی جاتی تو میرا نہیں خیال امی جان اور ان کے فرزند اپنے بیان پر قائم رہتے۔ خیر اب آتے ھیں سابقہ وزیراعظم کے اخراجات کی ادائیگی پر۔ وہ کیا خوب مصرعہ ھے کہ ۔ معمہ ھے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اگر کسی طرح مان بھی لیں میاں صاحب نے خراجات اپنے جیب سے ادا کئے تو یہ بُہت اچھی اور شاندار مثال ھے۔ لیکن اس معاملے کو کُچھ تنقیدی نظر سے اگر دیکھا جائے تو بات بنتی نظر نہیں آتی۔

کل حکومت کے وزیر اطلاعات جناب فواد چوھدری نے کہا کہ اگر میاں صاحب اور ان کی پارٹی چاہے تو حکومت وہ سارے اخراجات کی تفصیل مہیا کرسکتی ھے۔ جو کہ حکومتی ترجمان کے مطابق کروڑوں روپے ھیں ۔ جب کہ کل شام تک ھمارے محترم صحافی نے کہا کہ وہ اپنی خبر پر اب بھی قائم ھیں ۔ ھم چونکہ سابقہ حکومت کے اطلاعات کے وزیر خاص کر پرویز رشید صاحب اور مریم اورنگزیب کے “سچ اور ناقابل تردید” بیانات سے اچھی طرح واقف ھیں تو ھم نئے اطلاعات کے وزیر کے بیان کو صرف حکومتی “سچ” سمجھتے ھیں۔ لہذہ ہم اپنے صحافی بھائی سے گزارش کریں گے کہ وہ تمام اخراجات کی تفصیل فوراً حکومت سے طلب کرے چونکہ تمام ادائیگی تو ان کے خبر کے مطابق میاں صاحب خود پہلے ہی کر چکے ھیں۔ تو اگر کُچھ چائے۔ سموسہ بسکٹ کے کُچھ دو چار سو روپے بھول چوک سے میاں صاحب ستائیس جولائی کو پریشانی میں جاتے دینا بھول بھی گئے۔ تو محترم صحافی خود دے کے ایک تو ان کی خبر کی تصدیق پر ھم جیسے کم ظرفوں نے جو اعتراض اُٹھائے وہ ختم ھو جائیں گے۔ دوسرا وہ میاں صاحب کے اور “”نزدیک “ ھو جائیں گے۔

آخری بات ! محترم صحافی نے ایک دھماکہ دار خبر دی ھم ان کو کم دھماکے دار بلکہ پٹاخے دار خبر دے دیں کہ عید کے بعد میاں صاحب اور مریم بی بی جیل سے رہا ھو جائیں گے۔ اس خبر سے صحافی بھائی بھی خوش ۔ امی جان بھی خوش اور خبر سے میرا ایک ذاتی فائدہ بھی ھو سکتا ھے کہ میں صحافی بھائی کے “خاص” اور گڈ بُک میں شامل ھو جاؤں اور ترقی کرکے “چمچہ” بن جاؤں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).