پی ٹی آئی حکومت کا قیام اورمستقبل کے چیلنجز


تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے اور یوں عمران خان کو اَپنی 22 سالہ جدوجہدکا پھل ملک کے 22 ویں وزیراعظم بننے کی صورت میں مل گیاہے۔عمران خان نے ہنگامہ خیزسیاسی زندگی گزاری ہے۔ انہوں نے سخت ترین اپوزیشن کا کردار اَدا کیا اور اَب خود انہیں بھی مضبوط اپوزیشن کا سامناکرنا پڑے گا، جس سے پی ٹی آئی کی حکومت سخت دباؤ میں رہے گی اور اُسے ہرقدم پھونک پھونک کراُٹھانا پڑے گا۔ اگرچہ ابھی تک اپوزیشن خود اَپنی ترجیحات کے تعین میں تقسیم و منتشر ہے اور وہ ابھی تک کسی واضح لائحہ عمل کواِختیارکرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ، لیکن مستقبل میں اپوزیشن مفادات مشترک ہوجانے پر پی ٹی آئی کے خلاف متحدہونے اورحکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔آئندہ چند ماہ میں صورت حال خاصی حدتک واضح ہو جائے گی کہ حکومت اور اپوزیشن کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے۔یہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ سیاسی مخالفت کو کم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
کسی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اُس کے پہلے ایک سو دِن نہایت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اِن سو دنوں میں کون سے انقلابی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان کے اقدامات کی ترجیحات واضح نہیں ہیں، مگر امکان یہی ہے کہ وہ اپنے اعلانات کے مطابق پولیس،محکمہ مال اورتعلیم کے شعبے میں اصلاحات اور تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے، جیسے کہ ان کی حکومت نے خیبرپختونخواہ میں ان محکموں میں اصلاحات لائی تھیں۔اگر پی ٹی آئی حکومت پولیس کوسیاسی دباؤ سے آزاد کرانے اور پٹواری کلچر سے چھٹکارا دلانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ملک میں یقیناً بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ اگرچہ خیبرپختونخوا میں پولیس کی کارکردگی میں اضافے کی وجوہات میں مخصوص حالات میں ورلڈبنک کی خصوصی امداد اورپولیس نفری میں اضافہ بھی شامل تھیں، لیکن اس کے باوجود پولیس اصلاحات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں لایاجاسکا، اور نہ عمران خان کے دعووں کے باوجود صوبے میں امریکا کے شیرف طرز کا پولیس سسٹم متعارف کرایا جاسکا ، بلکہ کئی اہم ترقیاتی پراجیکٹس جیسے ماڈرن فارنزک لیبارٹری اور سیف سٹی پروجیکٹ کے قیام کی بجائے نمائشی سرگرمیاں دکھانے کی کوشش کی گئی،جیسے ڈائریکٹوریٹ آف کاؤنٹر ٹیررازم کا نام بدل کے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح محکمہ مال میں کافی حدتک تبدیلی کے باوجود لینڈلارڈز مافیا پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔تحریک انصاف کو اِن خامیوں سے پاک نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
عمران خان پانچ سالوں میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تعمیرکرکے عوام کو دینے کا اعلان کیے بیٹھے ہیں، انہوں نے اپنی جماعت کے منشور کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ” ہماری حکومت میں معیشت کی بحالی بڑا چیلنج ہے۔ سی پیک گیم چینجر میں تبدیلی، نئے ڈیمز کی تعمیر ،توانائی بحران کا خاتمہ ،معیشت کی بحالی ، غربت کا خاتمہ ،اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ،سیاحت ،صنعت اور آئی ٹی کے شعبے میں فروغ ، ایف بی آر میں نئی اصلاحات ، ویلتھ فنڈ کا قیام ،اداروں کی مضبوطی ، بیورو کریسی میں سیاست کا خاتمہ ، کرپشن کا خاتمہ ، نیب کی خودمختاری ، ملک بھر کی پولیس غیر سیاسی ، گلگت، بلتستان کو مزید اختیارات فراہمی اور جنوبی پنجاب تحریک کی حمایت منشور کا حصہ ہو گی۔” اب حکومت سازی کے بعدتحریک انصاف پر بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ اپنے منشور پرعمل درآمد کو یقینی بنائے اور عوام کے مصائب اورملک کے مسائل کو کم کرنے میں اپنا کردار اَدا کرے۔
پاکستان کے معاشی مسائل عمران خان کی طرف سے دیرپا حل کے منتظر ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو فوری طور پر 10 سے 15اَرب ڈالر کی ضرورت پڑے گی، جس کے لئے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ سکتا ہے، اگر پاکستان کو ترکی،چین اورسعودی عرب سے خاطر خواہ امداد مل جائے تو معاشی بحران ٹل سکتاہے،لیکن اس کے لیے شفاف، دیرپا اور مستقل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، کیونکہ شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کیلئے پرنسپل سیکرٹری، صوبائی چیف سیکرٹریز ، آئی جیز ، چیئرمین ایف بی آر اوردیگر اہم عہدوں پر افسران کی تعیناتی کرنا بھی بڑا چیلنج ہو گی ۔دیگر چیلنجز کے ساتھ اہم عہدوں پر اچھی شہرت کے افسران کا تقرر بھی اہم مرحلہ ہوگا ۔ جبکہ وزارت داخلہ کے ماتحت ادارے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی بھی بڑی اہم ہے ۔نیکٹا میں تعیناتی کے لئے افسر کا انتخاب اہم مرحلہ ہو گا۔اگر اِن تمام عہدوں پر اِیماندار اور اچھی شہرت کے حامل افسران لائے جائیں تو یہ گڈ گورننس کی بہترین مثال بن سکتی ہے ۔ نئی حکومت کو درپیش معاشی چیلنج کے ساتھ ڈالر کی بڑھتی ہو ئی قدر کو کنٹرول کرنے جیسے مسائل بھی کے حل کرنے کے لئے تجربہ کار اور غیر متنازعہ گورنر سٹیٹ بنک کی تعیناتی بھی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
عمران خان اس عزم کا اظہارکرچکے ہیں کہ” وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست مدینہ جو پاکستان کیلئے رول ماڈل ہے، کی بنیاد جن اصولوں پررکھی گئی تھی۔ ہم بھی ان ہی اصولوں سے پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں گے ۔” عمران خان اگر صدقِ دل کے ساتھ ملک کو مدینہ کی ریاست کے طرز پر چلانا چاہیں تو اُن کے لیے قراردادِ مقاصد، تمام مکاتب فکرکے علماء کے مرتب کردہ بائیس نکات اور اِسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات مشعل راہ اورممدومعاون ثابت ہوسکتی ہیں اور اُن کے راستے میں کسی بھی قسم کی کوئی قانونی یامسلکی رکاوٹ باقی نہیں رہ سکتی۔علاوہ ازیں ناموس رسالت اورتحفظ ختم نبوت کے حوالے سے بھی عمران خان کو عالمی فورم پراُمت مسلمہ کا متفقہ دوٹوک موقف وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ رواں ماہ کے اوائل میں لندن میں قادیانیوں کے سالانہ جلسہ میں رکن پارلیمنٹ سرایڈورڈ ڈیوی اور دیگر برطانوی مقررین نے عمران خان پرپاکستان میں قادیانیوں کو رعایات دینے کے لیے زور دیا اور دھمکی آمیز بیانات داغے ہیں۔ عمران خان کو قادیانیت نوازی کے نتیجے میں ن لیگی حکمرانوں کا انجامِ بد ہمہ وقت سامنے رکھنے کی بھی اشدضرورت ہے، کیونکہ معاشی بحران تو ٹل سکتے ہیں، مگر تحفظ ختم نبوت، نظریہ پاکستان اور ملک کی نظریاتی بنیادوں سے انحراف سکندرمرزا، خواجہ ناظم الدین، جنرل (ر) اعظم خان اور نوازشریف کی طرح بند گلی کا رَاہی بنا سکتاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).