عمران خان اب اپنی آواز مدہم رکھیں، الفاظ کا وزن بڑھائیں


کبھی آواز بلند کرنے کا وقت ہوتا ہے، اورکبھی الفاظ۔ رہنما دونوں مواقع کا انتخاب دانشمندی سے کرتے ہیں۔

گزشتہ پانچ برسوں سے عمران خان، جو اب پاکستان کے بائیسویں وزیر ِاعظم منتخب ہوئے ہیں، نے درست موقع پر اپنی آواز بلند کی۔ بیانات کا کوڑا مخالفین پر خوب برسایا۔ آواز کی گولہ باری سے مخالفین کی ساکھ مسمار کی۔ حریفوں کو مجسم برائی قرار دیا۔ زہریلی نفرت میں بجھا ہوا بیانیہ ارزاں کیا۔ دراصل وہ قوم کی مایوسی کو اشتعال، اور اشتعال کو اپنی سیڑھی میں ڈھال کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا چاہتے تھے۔ سب کچھ بدل ڈالنے کا دعویٰ زاد ِراہ کیا۔ ایسا کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں لحاظ برتنا مناسب نہ سمجھا۔ بعض مواقع پر استعمال کیے گئے الفاظ کا سفلی پن شرمناک تھا۔ لیکن وہ اپنی آواز اتنی اٹھانے میں کامیاب رہے جو پاکستان میں طاقت کے حقیقی دریچوں میں سنی جائے۔ یہاں تک کہ اُن کا اعتماد جیتنے میں کامیاب رہے۔ لیکن بطور وزیر ِاعظم انتخاب کے موقع پر توقع تھی کہ اب وہ اپنا لہجہ تبدیل کریں گے۔ لیکن اُس روز وہ ایسا نہ کرسکے۔

اُس موقع پر عمران خان کی تقریر اُن دنوں کی یاد دلاتی تھی جب وہ اپنے محدود جنگل میں اکیلے شیر تھے، اور بعض مواقع پر اُن کے سامعین گنے چنے افراد ہوتے تھے۔ لیکن وزیر ِاعظم کے انتخاب کے بعد اب پوری دنیا کے کان اُ ن کی طرف لگے ہوئے تھے۔ اُن سے بصیرت افروز، مفاہمت پذیراور د ل جیتنے والے الفاظ کی توقع تھی۔ اُنھوں نے عظیم ترتزویراتی خدوخال، قومی پالیسی اور داخلی مسائل کی بات کرنی تھی۔ لگنے والے زخموں پر مرہم رکھنا تھا۔ اُنھوں نے خطے اور دنیا کو احساس دلانا تھا کہ ایک نیا رہنما منظر پر آچکا ہے۔

لیکن اُنھوں نے سامعین کو مایوس کیا۔ اس کی بجائے وہ اُنہی چار حلقوں کے کھولنے کا راگ الاپتے سنائی دے۔ وہ حلقے جن کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ 2013 ء کے انتخابات میں اُن میں دھاندلی ہوئی تھی۔ اپوزیشن کے خلاف وہی کنٹینر والا لہجہ اپنایا، تضحیک کو روا رکھا، حریفوں کو چیلنج کیا، اور اُس موقع پر، جب کہ وہ پاکستان کے منتخب شدہ وزیر ِاعظم تھے، اُن کا رویہ ایسا تھا جیسے کوئی نیا گینگ لیڈر سابق حریف کو کچل کر اپناراستہ بناتا ہے۔

اُس روز عمران نے جو کچھ کہا، اُس کی کیا اہمیت ہے؟ رہنما ؤں کی عامیانہ تقریر کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ مائیک کے سامنے آتے ہی وہ سر سے ہر قسم کا بوجھ، جیسا کہ عقل اور معقولیت وغیرہ، اتار پھینکتے ہیں۔ تو کیا ہوا؟ عمران کے پاس دیگر بہت سے مواقع ہوں گے جب وہ اُس دن کا مداوا کرسکیں گے۔ تو پھر وسیع ترپیرائے میں اُن چند لمحوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ اپنے حریفوں کو واضح برتری سے زیر کرچکے ہیں۔ ڈرائیونگ سیٹ اُن کے پاس ہے۔ وہ اپنے خواب کو حقیقت میں بدل چکے ہیں۔

لیکن ٹھہریں۔ بہت سی وجوہ کی بنا پر اُس دن سے فرق پڑتا ہے۔ وہ بہت اہم موقع تھا۔ وہ ایوان کے لہجے کو ایک نئے پن سے آشنا کرتے ہوئے اپوزیشن کو نیچا دکھاسکتے تھے۔ وہ دنیا پر ثابت کرسکتے تھے کہ عوام نے فکری طو رپر ایک ایسے رہنما کو چنا ہے جس کے سامنے روایتی سیاست دان بونے ہیں۔ لیکن ہوا یوں کہ اُس روز عمران خان نے خود کو فکری طو رپر بونا ثابت کرلیا۔ وہ اپوزیشن کی وکٹ پر کھیلنے کے لیے چلے گئے۔ اُنھوں نے نئے ایوان میں اُس لہجے کا ”افتتاح ‘‘ کردیا جسے اب آنے والے دنوں میں اپوزیشن آگے بڑھائے گی۔

لیڈر آف دی ہاؤس کو اتنی جلدی مشتعل کرتے ہوئے تمام ہاؤس کے نظم کو تہہ وبالا کردینا کسی بھی اپوزیشن کے لیے شاندار شروعات ہوسکتی ہے۔ خان نے حریف بولنگ لائن اپ کو بتادیا کہ گیند سیم بھی ہورہاہے اور سوئنگ بھی۔ وہ یہ اہم بات بھول گئے کہ تنازعات سے بچنا اور اپنے ایجنڈے (پالیسی یا بحث) کو آگے بڑھانا حکومت کا کام ہوتا ہے، خاص طور پر ایسی حکومت جس کی برتری کولیشن پارٹنرز کی مرہون منت ہو اور جس نے عوام سے بھاری بھرکم وعدے کررکھے ہوں۔ اپوزیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ موقع ملتے ہی اُسے پٹری سے اتار دے۔

حکومت کو جاننا چاہیے کہ یہ صدارتی نظام ِ حکومت نہیں جہاں آپ عوامی نمائندوں کو بائی پاس کرکے ایوان کو چلا لیں گے۔ یہاں پالیسی فیصلوں اور قانون سازی کے لیے ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے لیے تو ایوان کی فعالیت اور بھی ضروری ہے کیونکہ اُنھوں نے بہت بڑا اصلاحاتی ایجنڈا میز پر رکھ دیا ہے۔ اس کے لیے قانون سازی درکار ہے۔ تو پھر حکومت تلوار بے نیام کرکے کام کیسے چلائے گی؟ اتفاق ِ رائے کا طریقہ کچھ اور ہے۔ تبدیلی کی تحریک کی قیادت کون کرے گا؟ اس تحریک کے لیے نرم خوئی درکار ہے۔

پاکستان میں حکومت کرنا ناقابل ِ تصور چیلنجز قبول کرنے کا نام ہے۔ اس پس ِ منظر میں تشویش ناک بات یہ ہے کہ اپوزیشن بہت آسانی سے وزیر ِاعظم عمران خان کو اشتعال دلانے میں کامیاب ہوگئی، اور اُنھوں نے ماضی قریب کی طرح اپوزیشن پر چڑھائی کردی۔ حلف برداری کی تقریب میں بھی تلخی کم نہ ہوئی۔ اُن کی اپنی جماعت کے لوگ اور مہمان تو موجود تھے، لیکن اپوزیشن کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ بلکہ اُن کے کچھ حلیف بھی وہاں دکھائی نہ دیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے لیے بہت ہی تنگ گزر گاہ چن رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول رہے ہیں کہ اُن کے دوش پر بھاری بھرکم اصلاحاتی ایجنڈے کا بوجھ ہے۔ اُنہیں کشادہ دلی اور بلند ظرفی کی ضرورت تھی۔

اب چاہے یہ بات عمران خان کو پسند آئے یا نہ آئے، اس زہر کا تریاق کرنا اُنہی کی ذمہ داری ہے۔ اگر اُنھوں نے تلوار نیام میں نہ ڈالی تو ایوان میدان ِ جنگ بنا رہے گا۔ چنانچہ اُنہیں اپنی سیاسی شخصیت کو فی الفور تبدیل کرنا ہوگاتاکہ اس نظام کو اپنی پسند کے مطابق ڈھال سکیں۔ لیکن کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ ہم میں سے اکثر ایک خاص عمر گزرنے کے بعد خود کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ جب تجربے کی بھٹی عادت کو پختہ کردے، اور جب جانچ سے استثنیٰ حاصل رہے، تو پھر خود کو تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ عمران خان نے زندگی بھر جو الفاظ چاہے، ادا کیے۔ اُن پر اپنے رویے یا الفاظ کو تبدیل کرنے کے لیے کبھی بھی عوامی یا سماجی دباؤ نہیں رہا۔ سیاست میں حالیہ کامیابی نے اُنہیں یقین دلادیا ہے کہ الفاظ کی سنگ باری سے حریفوں کی کمر توڑ کر اپنا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کامیابی کے ساتھ وہ ملک کے بائیسویں وزیر ِاعظم کے طور پر عوام کے سامنے کھڑے ہیں۔ منصب اور ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ وہ جوشیلے رہنما کی بجائے ایک مدبر قائد بنیں۔ اس کے لیے لہجے کی کھنک کم اور الفاظ کی معنویت بڑھانی ہوگی۔

اگر وہ خود ایسا نہ کرسکیں تو اُنہیں اپنے گرد ایسے مشیرچاہئیں جو مسلسل یاد دلاتے ہیں کہ اُنہیں اپنے خطاب میں محتاط لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُن کے وہ جذباتی ساتھی، جو اپوزیشن کے دنوں میں اُن کے دست وبازو تھے، اُن کے گرد دکھائی نہیں دینے چاہئیں۔ اس کی بجائے اُنہیں سنجیدہ آوازوں کی ضرورت ہے۔ اُنہیں اپنی پارٹی کے اندر سے ہی کوئی انتظا م کرنا ہوگا۔ وہ اس کے بغیر ایوان کو نہیں چلا سکیں گے اور نہ ہی قانون سازی کرسکیں گے۔

اس وقت دکھائی یہ دیتا ہے کہ وہ ابھی تک عوامی مقبولیت کے سحر سے باہر نہیں نکلے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر، گورنرخیبرپختونخوا اور سندھ اور پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کے لیے انتخاب انتہائی غیر معمولی وقتوں میں کیے گئے انتہائی عامیانہ فیصلے ہیں۔ عثمان بزدار کو وزیر ِ اعلیٰ پنجاب نامزد کرنے کاعمران خان کا جواز یہ تھا کہ اُن کا تعلق پسماندہ علاقے سے ہے۔ تو کیا آئندہ کسی امیدوار کی کل قابلیت یہی ہوگی کہ اُس کا تعلق کس علاقے سے ہے؟ ناتجربہ کار یا وفادار ساتھیوں کو کلیدی پوزیشنز پر فائز کرنا شاید اچھا دکھائی دیتا ہے، لیکن اس سے گورننس کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

ضروری ہے کہ عمران خان اپنی آواز کے ذریعے طاقت کی دھاک بٹھانے اور اپنے جوشیلے حامیوں کو خوشی سے سرشار کرنے سے گریز کریں۔ اب وہ ذہنی طور پر جلسہ گاہ سے ایوان میں تشریف لے آئیں۔ ایوان کو تقسیم کرنے سے گریز کریں، پارلیمانی امور پر توجہ دیں اور تبدیلی کے علامتی اقدامات کی بجائے حقیقی اصلاحات کا ایجنڈا آگے بڑھائیں۔

اس کے لئے مکالمے، عاجزی اور حریفوں کو عزت دینے اور اُن کی بات سننے کی ضرورت ہے۔ بے معانی تنازعات میں الجھ کر آپے سے باہر ہونے سے اُن کی توانائیاں ضائع ہوتی رہیں گی۔ ایسی صورت میں وہ حکومت نہیں چلاپائیں گے۔ اس ملک نے طویل عرصے تک نفرت انگیز مبارزت کے زخم اٹھائے ہیں۔ ہم نے قومی بیانیے پر سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا غلبہ دیکھا ہے۔ ہم انصاف کے نام ذاتی مقاصد کے حصول کے شرمناک کھیل کے گواہ ہیں۔ کہنا پڑے گا کہ بہت ہوگئی۔ ا ب ملک ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اس وقت عمران خان کے سامنے نادر موقع ہے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ ایک ذی شعور حکمران کے آنے سے فرق پڑتا ہے۔ اُنہیں اپنی آوازبلند کرنے کی بجائے اپنے الفاظ کا وزن بڑھانا ہوگا، جیسا کہ مولانا رومی نے کہا ہے،

”پھول بارش سے اُگتے ہیں، گرج چمک سے نہیں۔ ‘‘
بشکریہ روزنامہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).