نئے پاکستان کے لئے نئے معیارات


حالیہ عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس کے نتیجے میں عمران خان صاحب نے ملک کے 22 ویں وزیرِ اعظم کاحلف اٹھایا۔ نو منتخب حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ عمران خان صاحب قوم سے کئے ہوئے وعدے پورے کریں گے یا نہیں؟ یا نئی حکومت کی ترجیحات عوام کے حق میں ہوں گی یا نہیں؟ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ نیا پاکستان بنتے ہی وطن ِ عزیز میں چند ایک نئے معیارات متعارف کروائے گئے ہیں جن کا روز مرہ کے معمولات میں آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

خواندگی کو ہی لے لیجئے، نئے پاکستان میں خواندگی کو جانچنے کے لئے ایک انتہائی زبردست پیمانہ متعارف کروایا گیا ہے۔جس کے مطابق اگر آپ نے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا ہے تو آپ نہایت پڑھے لکھے ، با شعور، ذہین فطین او رانتہائی دُور اندیش شخص ہیں اور اگر آپ کا ووٹ پاکستان مسلم لیگ ق، ایم کیوایم، عوامی مسلم لیگ یا بلوچستان عوام پارٹی کے حصے میں آیا ہے تو آپ کا شمار نیم خواندہ قسم کے لوگوں میں ہو گا جو انتہائی کم شعور اورفہم و فراست رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن یا پھر متحدہ مجلسِ عمل کو ووٹ دیا ہے تو آپ اس دنیا کے جاہل ترین شخص ہیں،آپ کے اندر شعور نام کی کوئی چیز نہیں ہے، حتٰی کہ ایک روایت کے مطابق تو آپ گدھے ہیں (مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے پر آپ جاہل کے ساتھ ساتھ پٹواری بھی ہو سکتے ہیں)۔ اگر آپ نے آزاد امیدوار کو ووٹ دیا ہے تو آپ کاخواندہ یا نا خواندہ ہونا متعلقہ امیدوار کا جیتنے کے بعد پارٹی جوائن کرنے سے مشروط ہو گا اگر تو وہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو آپ کا خواندہ ہونا ناگزیر ہے اور اگر وہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن میں جا تا ہے تو آپ کو جاہل ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکتی۔

اس پیمانے کے مطابق صوبہ پنجاب میں راولپنڈی ڈویژن کے لوگ انتہائی پڑھے لکھے اوربا شعورہیں، گوجرانوالہ ڈویژن کے لوگ انتہائی جاہل اور اُجڈ ہیں خاص طور پر ضلع گوجرانوالہ کے مکین ،جہاں شرح خواندگی صفر ہے۔لاہور ڈویژن میں بھی جہالت غالب ہے اور ساہیوال ڈویژن کی بات کی جائے تو یہاں بھی جہالت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور خاص طور پر ضلع اوکاڑہ کے لوگوں میں جہالت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کیوں کہ اس ضلع میں بھی خواندگی کی شرح صفر ہے جس میں آنے والے دنوں میں کسی قسم کی بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ البتہ جنوبی پنجاب میں بہت با شعور اور پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں کیونکہ جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع ایسے ہیں جہاں شرح خواندگی تقریباً 80 فیصد سے اوپر ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ اتنا شعور اور تعلیم ہونے کے باوجود جنوبی پنجاب کو پسماندہ علاقہ کہا جا تا ہے۔

اس کے علاوہ اگر آپ اپنے تئیں تجزیہ نگار ہیں اور اپنی رائے دینے سے باز نہیں آتے تو کسی بھی فورم پر آپ کی دی جانے والی رائے کو بھی نئے پاکستان کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق پرکھا جائے گا جیسا کہ اگر آپ عمران خان صاحب کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر یا عوام سے کئے جانے والے خطاب کو بہترین قرار دیتے ہیں تو آپ ایک نہایت غیر جانبدار ، محبِ وطن ،بے باک اور کھری بات کہنے والے تجزیہ نگار ہیں اور اگر آپ عمران خان صاحب کے ویژن یا ان کی طرف سے پیش کی گئی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ کی رائے بغض اور حسد پر مبنی ہے لہذا غیر جانب دار اور بے باک ہونے کے لئے آپ کا عمران خان صاحب سے اتفاق کرنا بہت ضروری ہے۔

دوسری طرف اگر آپ بلاول بھٹو زرداری کی الیکشن مہم اور قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کو مؤثر اور قابلِ تعریف قرار دیتے ہیں تو آپ ذہنی طور پر غلام ، موروثی سیاست کے علمبردار ، غدارِ وطن اور انتہائی جانبدار شخص ہیں جسے قومی تعمیر و ترقی سے کوئی غرض نہیں۔ موروثی سیاست سے یاد آیا کہ سیاست میں موروثیت کے حوالے سے بھی ایک بہترین پیمانہ موجود ہے جس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز اور مریم نواز موروثی سیاست کی پیداوار ہیں جن کو سیاست کی الف ،ب بھی نہیں آتی اور قومی سیاست میں ان کی آمد صرف اور صرف اپنے ابا و اجداد کی مرحونِ منت ہے جبکہ زین قریشی، فواد چوہدری، علی ترین، حماد اظہر، سردار عثمان بُزدار، خرم جہانگیر وٹو ، راؤ حسن سکندر ، حسین الہی اور مونس الہی کا دُور دُور تک موروثی سیاست سے کوئی تعلق نہیں یہ لوگ خالصتاً اپنی سیاسی جدو جہد کی وجہ سے قومی سیاست کے افق پر ابھرے ہیں اور مستقبل میں یہ پاکستانی سیاست کے ابراہم لنکن یا ونسٹن چرچل ثابت ہو سکتے ہیں۔

امیدہے کہ نئے پاکستان میں تیزی سے بڑھنے والے یہ رجحانات بہت جلد آئین ِ پاکستان میں موجود آرٹیکل 17 (جو ہر شہری کوکسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھنے کا حق دیتا ہے) اور آرٹیکل 19(جو ہر شہری کو اپنی رائے دینے کی آزادی دیتا ہے) جیسی ٖفضول چیزوں سے نجات دلائیں گے جس سے پاکستان میں جمہوریت مزید مستحکم ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).