جعلی شاعرات کی بحث



ان دنوں ہمارے شاعر حضرات دن رات یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے کہ شاعرہ کون ہے اور متشاعرہ کون؟۔ اس حوالے سے اپنی بات پہچانے کا انتہائی آسان اور سستاترین ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ میں بذاتِ خود ایسے موضوعات پر بات کرنے اور ایسی بحثوں میں حصہ لینے سے کتراتا ہوں کیونکہ یہ بحثیں صرف اور صرف وقت اور انرجی کا ضیاع ہیں۔ روزِ ازل سے لے کر آج تک یہ بحثیں کسی نہ کسی حوالے سے ادب کا حصہ رہیں اور کئی نامور سینئرز شاعر ایسے الزامات کی زد میں رہے کہ وہ شاعرات پر دستِ شفقت رکھتے ہیں اور مرد شاعروں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس حوالے سے بہت عرصہ پہلے’’شاعروں اور ادیبوں کے اسکینڈل‘‘کے نام سے ایک کتاب بھی مارکیٹ میں آئی تھی جو آج کافی تلاش کے بعد ذاتی کتب خانے سے نہیں ملی(اگرچہ میرے پاس موجود تھی) ‘اس کتاب میں ‘احمد ندیم قاسمی‘امجد اسلام امجد‘احمد فراز‘مرتضیٰ برلاس‘ عباس تابش‘پروین شاکر‘منصورہ احمد‘نوشی گیلانی سمیت کئی مرد و خواتین لکھاریوں کو تنقیدی کا نشانہ بنایا گیا اور کون کس کو لکھ کر دیتا ہے اور کون لکھواتا ہے ‘اس کتاب میں سب تفصیلی ذکر ہے۔ اگر مجھے وہ کتاب دوبارہ مل جاتی تو شاید یہ کالم زیادہ تفصیل سے لکھا جاتا۔ خیر آج میرا موضوع مندرجہ بالا خواتین و حضرات بالکل بھی نہیں‘ یہ سب میرے انتہائی سینئرز ہیں اور میں ان کی ذاتی و ادبی زندگی کے حوالے سے قطعا کوئی ایسی سٹیٹمنٹ نہیں دینا چاہتا جو کمزور ہو یا جس کے حوالے سے میں خود کوئی تحقیق نہیں رکھتا۔ میں نے اس سے قبل اسی عنوان سے سلسلہ وار تین کالم لکھے تھے جس پر میری ذات کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا گیا اگرچہ ان کالموں میں بھی کوئی ذاتی لڑائی جھگڑا زیرِ بحث نہیں لایا گیا تھا۔
ارئین مسئلہ یہ نہیں کہ کون کون سی خواتین کہاں کہاں سے لکھواتی ہیں یا کون سی خاتون لکھاری کس شاعر یا ادیب کی منہ بولی بہن ہے یا بیٹی۔ یہ بحث اب بالکل فضول ہے۔ ہمیں ان ساری خواتین کو تلاش کرنے کی بجائے جو جعلی تخلیق کار ہیں‘ایسے مرد حضرات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو یہ گھناؤنا کاروبار کرتے ہیں۔ پیسے اور جنسی ہوس کو پورا کرنے کے لیے وہ کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے منہ بولا رشتہ بنانے کی روایت تو خاصی پرانی بھی اور حوصلہ بخش بھی‘کیونکہ اس طرح انسان جلدی نظروں میں نہیں آتا مگر خیر سچ چھپا ہوا نہیں رہتا۔ ن دنوں میں ان موضوعات پر سلسلہ وار کالم لکھ رہا تھا‘انہی دنوں حلقہ اربابِ ذوق کی ایک نام نہاد شاعرہ کے کہنے پر مجھ سے تصدیق کیے بغیر الزامات لگائے اور جب میں نے اس حوالے سے شور ڈالا تو میرے ایک انتہائی محترم استاد سے یہ کہہ کر میرا منہ بند کروا دیا گیا کہ ’’ہم اس مسئلے کے بارے تحقیق کرتے ہیں‘ آغرؔ ندیم کو چپ کروائیں‘‘۔ بعد میں مجھے اس معاملے کی تحقیق کے لیے ایک سینئر ممبر نے مجھے بلایا بھی مگر میں نے خود معذرت کر لی۔

ایسے ہی کئی واقعات موجود ہیں جو شاعرات لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ’’عائشہ گلالئی‘‘کا کردار ادا کرتی ہیں اور عوام ان کا کیا حشر کرتے ہیں یہ عائشہ گلالئی کو ملنے والے حالیہ ووٹوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جن دنوں یہ بحث چل رہی تھی مجھے کسی مہربان نے اسی متشاعرہ کے حوالے سے کئی مستند ثبوت بھی بھیجے تھے کہ وہ کہاں سے لکھواتی ہے اور کون کون اس کی ’’پشت پناہی ‘‘کر رہا ہے اور یہ بھی کہ اس کا کردار کیسا ہے لیکن میں نے اس معاملے کو واقعتاً فراموش کر دیاتھا۔ ایک اور بات کا انکشاف بعد میں ہوا تھا کہ جن گھٹیا لوگوں نے ’’ٹرک آرٹ‘‘ کے نام سے پیج بنایا تھا ان میں بھی یہ شاعرہ شامل تھی۔ ادب کے سنجیدہ قارئین کو یاد ہوگا کہ اس گروپ میں ڈاکٹر سعادت سعید‘ سعود عثمانی‘ علی زریون‘ عطاالحق قاسمی‘ ندیم بھابھہ اور راقم سمیت کئی تخلیق کاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ اب ایسے ذہنوں سے کیا جھگڑا کرنا۔ حالیہ متشاعرات کی بحث کے جواب میں بھی جب میں نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا کہ میں کالم لکھتا ہوں تو میرے ان بکس میں درجنوں لوگوں نے میسج کیے اور اپنے اپنے حوالے سے اکٹھی کی جانے والی تحقیق بھیجی جس میں کئی نامور خواتین کا پردہ چاک کیا گیا مگر میں نے سب سے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ میں اس معاملے میں کسی بھی طرح سے شامل نہیں ہونا چاہتا۔

آج کے کالم کا مقصد بھی قطعا خواتین متشاعرات نہیں بلکہ وہ شاعر حضرات ہیں جو یہ سب کر رہے ہیں اور بلا دھڑک مشاعروں میں ان خواتین کو متعارف بھی کروا رہے ہیں جن کی حیثیت یہ ہے کہ وہ درست تلفظ نہیں پڑھ سکتیں۔ کچھ روز قبل ایک ایسے ہی مشاعرے میں گیا جہاں مستند متشاعرہ کو اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا اور میں یہ دیکھتے ہی بغیر مشاعرہ پڑھے واپس آ گیا۔ اردو شاعری کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہر دور میں جعلی شاعر اور شاعرات اسٹیج کی زینت بنتی رہیں۔ خواتین شاعرات کی بحث تو الگ رہ گئی‘آ ج تو مرد حضرات نوجوان لڑکوں کی کھیپ تیار کرنے میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ کئی بونوں پر شاگردوں کی تعداد بڑھا کر اپنا قد بڑا کرنے کا جنون سوار ہے اور کئی بیچارے اچھے نوجوان شعرا کے دامن کو تھام کر اپنا نام بنانے کے چکر میں ہے۔ ایسے ہی ہمارے کئی سینئرز شعراء پر بھی الزام رہا کہ جو نوجوان ان کے پاس اصلاح کے لیے آتے ہیں‘ وہ سینئرز اور نام نہاد استاد شعراء ان کے اچھے خیالات کو اپنے پاس رکھ کے انہیں انتہائی سادہ خیال میں شعر عنایت کر دیتے ہیں اور پھر ان کے شعروں پر شب خون مارتے ہیں۔ بندہ کس کس بات کا رونا روئے‘بھئی ادب کے ساتھ بلاتکار کرنے والا کام شروع ہے اور کر بھی وہ رہے ہیں جنہیں یونیورسٹیوں اور کالجز کے مشاعرے پڑھنے کی ہوس ہے۔ بے چارے بین الکلیاتی اور بین جامعاتی مقابلہ جات میں نوجوان سٹوڈنٹس کو شاگردی کا جھانسہ دے کر سارے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ یقین کریں اس وقت شاعری کے نام پرانتہائی گھٹیا اور گھناؤنا کاروبار چلایا جا رہا ہے سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مرد شاعروں کو پکڑا جائے جو یہ کام کر رہے ہیں‘خواتین شاعرات کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جانا کوئی قابلِ قدر فعل نہیں۔ اور ویسے بھی جعلی شاعرات کو اتنی ہی حیا ہوتی تو وہ یہ کام کرتی ہی کیوں۔ میری ذاتی رائے اس حوالے سے ہمیشہ سے یہ رہی کہ موجودہ خواتین میں فہمیدہ ریاض‘ کشورناہید‘ یاسمین حمید‘ حمیدہ شاہین اور عارفہ شہزاد (جو نام فی الوقت یاد آئے وہ لکھے)کی سطح کی شاعرات ہمارے ہاں نہ تو پیدا ہو رہی ہیں اور نہ ہی دور دور تک ایسی کوئی صورت حال نظر آتی ہے۔ جب کہ کئی نوجوان خواتین تو بے چاری مشاعرے پڑھنے اور بیرونِ ملک کے دوروں کی ہوس میں(مغربی ماڈل بن کر) انسانیت کے درجے سے بھی کہیں نیچے گر گئیں لہٰذا ان کے موضوعات کو چھیڑنا یا ان پر بات کرنے کی بجائے اچھا ہے کہ بندہ کوئی اچھا مضمون ‘کالم یا کوئی غزل لکھ لے اور ایسے بونوں (مردو خواتین)کو ان کی حالت پہ چھوڑ دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).