غیرت مند مرد، جہیز کا بیڈ اور لوڈ ویڈنگ



سب سے پہلے تو نامعلوم افراد اور ایکٹر ان لاء جیسی کامیاب اور معیاری فلموں کے بعد لوڈ ویڈنگ جیسی ایک اور قابلِ ستاٗش کاوش پہ مبارک باد اور بہت شاباشی۔۔۔ فلم والاز نے ہمیشہ کی طرح سے خود سے وابستہ اپنے پرستاروں کی امیدوں کو مایوس نہیں کیا بلکہ اگلی ایک اور بہترین پیشکش کے لیے امیدیں بڑھا دیں ہیں۔

سینما گھر سے نکلنے کے بعد بھی کافی دیر تک کچھ آوازیں سماعتوں میں رس گھول رہی تھیں۔ ان میں سے ایک ہے فلم لوڈ ویڈنگ کے گانے محلے وچوں کوچ نہ کریں کی منفرد اور خوش الحان دل میں اُتر جانے والی بلند آواز اور دوسری ان تالیوں کی گونج، جو یونیورسل سینماز لاہور کے ہاوس فُل ہال نمبر سات میں خواتین، مرد اور فلموں کے شوقین نئی نسل کے بچوں بالخصوص لڑکوں میں کسی بیدارسوچ کی پذیرائی میں بلند ہوئی تھیں۔

جہیز ایک لعنت ہے، ہمیں جہیز جیسی لعنت کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرنی چاہیئے، جہیز کے سبب لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں، جہیز لینا قانوناً جرم ہے، ہمارے مذہب میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں جیسے روایتی، پھیکے، بدمزہ، بے جان جملوں کے تبادلے سے بڑھ کر ایک کوشش کانام لوڈ ویڈنگ ہے۔ جو آپکو ۱۰۰ منٹ کے بعد ، پیسے سے خریدی گٗئی انٹرٹینمنٹ کے بدلے دل میں اُتر جانے والے ایک تحفے کی صورت محسوس ہوتی ہے۔

لوڈ ویڈنگ کے چھوٹے چھوٹے برمحل، نہایت مہذب اور شائستہ جملوں نے بے شک بہت محظوظ کیا مگر کلائمکس کے تین جملوں کی روانی اور برجستگی میں اصل تبدیلی پنہاں ہے۔

پہلا، ضرورت مند ہو تو زکوۃ لو جہیز کیوں لیتے ہو؟

دوسرا، ویسے تو ہر مرد بڑا غیرت مند بنتا ہے مگر سوتا جہیز کے بیڈ پر ہی ہے۔

اور تیسرا فلم کا سب سے آخری جملہ

میں نے پھر بے بی سے شادی کرلی تاکہ کہیں سے تو لوڈ ویڈنگ کا لوڈ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے۔

ہر ہر جملے پہ سینما بینوں کی پذیرائی قابلِ دید تھی۔ امید افزوں وہ تبصرے تھے جو فلم ختم ہونے کے بعد ایک ڈائیلاگ کی طرح نوجوانوں میں ہی نہیں بلکہ ایک ہی گھر کے مرد و خواتین، بچوں اور بوڑھوں پہ مبنی افراد کے مابین شروع ہو گئے۔

‘یہ نام، دولت اور منافع کی دوڑ میں ضمیر فروش چینلز اور ان کے مارننگ اور گیم شوز تفریح کے نام پہ حرص و حسد کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ایک دن دکھاوے کے لیے جہیز کے خلاف مگر مچھ کے ٹسوے بہاتے ہیں اور سال کے تین سو چونسٹھ دن اس کی پذیرائی کرتے ہیں۔’، اپنے آگے چلنے والے، دیکھنے میں اندازاً ایک کم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوعمر لڑکے کے منہ سے ایسا تبصرہ سُنا تو اچھا لگا کہ لوگ اتنے بھی بے وقوف، بے حس، اندھے اور نابلد نہیں جتنا کچھ پراپیگنڈا کاروں نے انہیں اپنے ہتھکنڈوں کے آگے بے بس سمجھ رکھا ہے۔

لوڈ ویڈنگ کی عام کرداروں پہ مبنی منفرد کہانی، چھوٹی مگر جاندار کاسٹ، برجستہ جملوں سے مزین مکالمے اور عرصے بعد کچھ اپنی اپنی سی موسیقی نے جو دل جیتا وہ الگ معاملہ ہے مگر فلم میں سمجھداری سے بلکہ کمال چالاکی سے معااشرے کو دیمک لگانے والے چند اسباب اور ان کے پیچھے کارفرما عناصر کو بے نقاب کیا گیا ہے وہ یقیناً کہانی کار فضہ علی کی اپنے کام اور اپنے کام کی اہمیت کے ادراک کا مظہرہے۔

بالکل اسی طرح ڈائریکٹر نبیل قریشی نے سمجھداری اور مہارتِ فن سے کہیں نئے پرانے پاکستان کی ایک جھلک کو گاڑی کے شیشوں پہ سایوں کو لہرا کر، کہیں ملتان کے عمران باجوہ میں چھپنے طنز و مزاح کی آڑ میں اور کہیں کیمرے کے سامنے کھڑے ڈرامے بازوں کی عیاریوں کو کیمرے سے جس طرح بیان کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہی نہیں بلکہ جراتمندانہ بھی ہے۔

باوجود اس کے کہ اس فلم میں بھی روایتی لوازمات پورے ہیں جیسے ایک پُرخلوص عاشق اور اسکا ہر وقت ساتھ رہنے والا اس سے بھی مخلص دوست، ایک اعلیٰ اخلاق کی حامل بیوی، ایک مجبور، تھوڑی چالاک اور بہت پیاری ماں اور ایک ڈرامے باز بڑی بہن جس کی شادی اور شادی کے لیے نہ جمع ہونے والے جہیز کا سارا فساد ہے، بہت ساری باتیں ہیں جو اسے اس عید الاضحیٰ پہ ریلیز ہونے والی دیگر فلموں سے منفرد بناتی ہیں۔

بقرعید پہ ریلیز ہونے والی ہر ہی فلم میں ایک ویڈنگ سونگ یا ڈانس نمبر ہے جو آج کم از کم پاکستان کی سینما کی اشد ضرورت ہے مگر یہاں پر بھی محسن عباس حیدر کے گائے ہوئے گانے، منڈے لاہور دے اپنے میوزک، پکچریزیشن اور بہترین کوریوگرافی کی بدولت بھی ان تمام گانوں سے اوپر ہے۔ اس کے علاوہ محلوں وچوں کوچ نہ کریں، کو نئے دور کے ہیر رانجھا کا رومانوی ترانہ کہا جاسکتا ہے۔

اس عید پہ ریلیز ہونے والی ہر فلم اکثریتی سینما بینوں کے عین شوق کے مطابق روایتی فارمولا فلم ہے۔ بزنس کے پوائنٹ آف ویو سے لوڈ ویڈنگ کے ٹریلرریلیزکے بعد ذاتی رائے یہی تھی کہ یہ ایک روایتی بارہ مصالحے کی چاٹ، فلم ہی ہوگی مگر عید الاضحیٰ پہ ریلیز ہونے والی تینوں فلموں میں یہ فلم یقیناً کم فارمولا زیادہ تجربہ اور نسبتاً بالغ تجزیہ فلم ہے۔

لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوڈ ویڈنگ کو عید پہ ریلیز ہونے والی باقی دو فلموں جوانی پھر نہیں آنی ۲ اور پرواز ہے جنون کے مقابلے میں کم اسکرینز ملی ہیں اور بزنس کے اعتبار سے ایسے ہی بے سر پیر کی انٹرٹینمنٹ کے نام پہ بزنس فارمولا فلموں کی ہی زیادہ مانگ ہے مگر پھر بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے ہمارے فلم میکرز فارمولا فلموں سے مصالحہ تھوڑا کم کرتے کرتے کچھ تخلیقی اور تعمیری کاوشوں کا بھی تجربہ کرتے رہیں گے۔

آخر میں فلمساز و کہانی کار فضہ علی، مہدی علی ااور ہدایتکار نبیل قریشی کے ساتھ تمام اداکاروں، موسیقار، گلوکاروں اور فلم والاز کو ایک بار پھر شاباش اور نیک تمنائیں۔۔۔ ہمیں انٹرٹینمنٹ اور شوبز میں سیاسی و سماجی بلوغت کے حامل معاملہ فہم اور مدبر قلم، قرطاس، آواز، ساز، کہانی اور کرداروں کی ضرورت ہے جو اس معاشرے کو ہنستے کھیلتے آئینہ دکھاتے رہیں ناکہ صرف چربہ ناچ گانے میں لگا کر زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں سے غیر آشنا کرنے کا سبب بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).