ممتاز صحافی کلدیپ نیر کی موت- ایک عہد کا خاتمہ


اردو اور انگریزی کے مشہور صحافی، مایہ ناز شخصیت انسانی حقوق کے علمبردار، امن مشن اور ہند و پاک دوستی مہم کے سرگرم کارکن ، سیکولر قدروں کے امین، سابق ہائی کمشنر (برطانیہ میں سفیر ہند ) سابق راجیہ سبها ممبر جناب کلدیپ نیر صاحب رات 23 اگست 2018 اس دنیا سے کوچ کر گئے. انہوں نے اپنی صحافتی زندگی اردو اخبار کے پریس رپورٹر کی حیثیت سے شروع کی تھی. بعد میں وہ انگریزی روزنامہ اسٹیٹسمین کے دہلی ایڈیشن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے. ان کے کالم 14 مختلف زبانوں کے 80 اخبارات میں شائع ہوتے تھے. ایمرجنسی کے دنوں میں اندرا گاندھی کی تنقید کی پاداش میں جیل بھی بھیجے گئے تھے.
افسردگی تو ہے اس لئے کہ وہ میرے پسندیدہ favourite صحافیوں میں سے ایک تھے. اور کسی نہ کسی درجہ میں وابستگی تھی. ان سے متعلق دو باتیں خاص طور پر شیئر کرتا ہوں .1- پچھلے چند سالوں میں ملک میں ہونے والے واقعات سے غمزدہ تھے اور میں نے چنیدہ لوگوں کی مجلس اور سیمینار دونوں مقامات پر ان کو کہتے ہوئے سنا ” ملک میں سیکولر اقدار مائل بہ تنزل ہیں لبرل آواز یا تو خوف زدہ ہے یا انہیں مین اسٹریم میڈیا نظرانداز کررہاہے اور اسپیس دینے کو راضی نہیں ہے. یک رخی پالیسی کی ہوا بنائی جا رہی ہے جو کہ جمہوریت کے لئے سم قاتل ہے. وہ کہتے تھے کہ اکثریتی طبقہ کے لبرل لوگ جب انصاف کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو اقلیتی طبقہ کے لوگوں میں ایک قسم کا sense of security بوسٹ ہوتا ہے اور انہیں ایک حد تک اطمینان رہتا ہے کہ ہماری پشت پر اکثریتی طبقہ کے انصاف پسند لوگ ہیں. اس میں اب دن بہ دن کمی آرہی ہے اس طبقہ کے زیادہ لوگ اب سامنے نہیں آرہے ہیں یہ صحت مند رجحان نہیں ہے. وہ ہم سے کہتے کہ اقلیتوں کو چاہیئے کہ اکثریتی طبقہ کے انصاف پسند لوگوں کے ساتھ رابطہ مضبوط کریں. ان کو ساتھ لے کر اپنے حقوق کی لڑائی لڑیں. اس معنی میں دیکھا جائے تو واقعی میں نے ایک خیر اندیش دانشور کو کھویا ہے. جب جب میں ان کی میٹنگ میں یا جسٹس سچر کی میٹنگ میں گیا تو ان دونوں حضرات کو اپنی گفتگو کے دوران اس کا ذکر کرتے سنا. ان کو حالات کی ابتری کا اندازہ تھا اسی لئے وہ کسی نہ کسی بہانے ہمیں متنبہ کرتے تھے. افسوس کہ یہ دونوں شخصیات اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اور ایسا لگتا ہے کہ رواداری باہمی تعلقات اور انسانیت کے لئے اٹھنے والی آواز کا ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا. مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جاتی رہی ہیں لیکن حزب اختلاف کے لوگ بھی آواز اٹھانے میں شرم محسوس کر رہے ہیں. ایک میگزین کی رپورٹ کے مطابق ووٹر لسٹوں سے نام حذف کئے گئے جن میں زیادہ تر مسلم ہیں یا وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ایک مخصوص پارٹی کو ووٹ نہیں کرتے. اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ مسئلہ صرف اقلیتوں کا نہیں ہے. یہ ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا بھی مسئلہ ہے کہ ان کے ووٹرز کو فہرستوں سے حذف کیا گیا مگر کسی بھی پارٹی نے آواز نہیں اٹھائی.
2- ایک اور بات شیئر کرتا ہوں اس کا تعلق ان کی کفایت شعاری سے ہے. ان کے جو رسالے اور خطوط آتے تھے وہ ان کے لفافوں کو محفوظ رکھتے تھے اور مضمون لفافوں کی پشت پر خالی حصے پر لکھتے لکھتے تھے. ہمارے اخبار میں جب ان کا مضمون آتا تو میں دیکھ کر بہت تعجب کرتا کہ اتنے بڑے صحافی اور اتنی کفایت شعاری ! اس لئے کہ ہم نئے نئے لکھاری کاغذ خوب برباد کرتے تھے. لکھتے لکھتے درمیان میں کچھ اضافہ کرنے کا خیال آیا فورا دوسرا صفحہ لے لیا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).