نوجوانوں کے اعتماد کو مجروح نہ کیا جائے


پاکستان میں ہمیشہ سے بے یقینی کی ایک ایسی صورتحال رہی ہے کہ ہم اس سے کبھی نکل نہیں پائے۔ یہ بے یقینی افرادی اور اجتماعی ہر دو صورتوں میں ہمارے اندر بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہم نے اس بے یقینی سےنکلنے کی کبھی شعوری یا غیر شعوری کوشش بھی نہیں کی۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کے موقع پر اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی۔ پرویز الہی پی ٹی آی اور ق لیگ کے مشترکہ امیدوار تھے۔ انہیں واضح مجارٹی تھی۔ ان کی اکثریت صاف نظر آ رہی تھی لیکن ایک اندرونی خوف اور بے یقینی کی وجہ سے وہ ن لیگ میں موجود اپنے دوستوں سے رابطے کرتے رہے۔ ان کے ان دوستوں نے چوہدری کی دوستی کی لاج بھی رکھ لی لیکن ڈیموکریٹک روایات کو ایک دھچکا ضرور لگا جو ایک مثال بن کر ہماری ڈیموکریسی کا منہ چڑاتا رہے گا۔
ماضی میی اس کی بڑی مثال 1977 کا الیکشن ہی ۔اس سال پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل تھی لیکن جیسے اپوزیشن کا متحدہ اتحاد پی این اے بنا، بھٹو صاحب میں بے یقینی نمایاں ہونے لگی۔ اسی بے یقینی نے انہیں دھاندلی پر مجبور کیا۔ ان کے خلاف تحریک چلی۔ ضیا الحق نے فائدہ اٹھایا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
یہ ہماری بے یقینی ہی ہے کہ ہم صاحب حیثیت ہونے کے باوجود فکرمند رہتے۔ بچوں کے مستقبل کی فکر۔ اپنا گھر بنانے اس کو گرنے سے بچانے کی فکر۔ بارش کی دعائیں اور پھر سیوریج بند ہونے کی فکر۔ گاڑی بس یا جہاز کے وقت پر چلنے کی فکر۔ دراصل زندگی کے ہر معاملے پر بے یقینی غالب رہتی ہے۔
عمران خان کی حکومت جو ایک نسل کی شدید جدوجہد اور محنت کا ثمر ہے۔ قوم کو اس حکومت سے بے شمار توقعات ہیں۔ زیادہ تر امیدیں اس پر جوش جدوجہد کا نتیجہ ہیں جو خان نے الیکشن جیتنے کے لیے قوم کو دلوائی ہیں۔ اس قوم نے ماضی میں بڑے دھوکے کھائے ہیں ۔کبھی جمہوریت کبھی بنیادی جمہوریت کبھی ان کی ضد آمریت۔ نرم سے نرم اور کوڑے مارنے والے حکمرانوں کو دیکھا بلکہ بھگتا ہے۔ اس لیے بے یقینی قدرتی عمل ہے۔ سوائے نوجوان نسل کے جن کا کوئی ماضی ہے نہیں اور وہ تاریخ سے نابلد ہیں۔

خدارا اس نوجوان نسل کے اعتماد کو مجروح نہ کیا جائے۔ ہم تو بے یقینی اور حکومتوں کے مکر و فریب کو کئ بار دیکھ چکے اور برداشت کر چکے۔ ان کی پہلی باری ہے۔ الله قوم کو مزید مایوس ہونے سے بچائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).