وزیر اعظم پاکستان اور دھاندلی کا بیانیہ


پاکستان میں الیکشن 2018ء کےنتائج نے الیکشن کی ساکھ کو بری طرع سے نقصان پہنچایا ہے۔ دھاندلی کا نعرہ زبان زد عام ہے۔ تاریخی حوالے سے اگر بات کی جائے تو دھاندلی کا ذکر پاکستانی سیاست میں کوئی نیا نہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن کے بعد شکست خوردہ پارٹیاں اپنی سیاسی ہزیمت کو چھپانے کے لیے دھاندلی جیسے بہانوں ہی کا عذر تراشتی آئی ہیں۔ دھاندلی کے بیانیہ کو سب سے زیادہ پذیرائی 2013ء کے الیکشن نتائج کے بعد اس وقت ملی جب عمران خان صاحب نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر دھاندلی کے الزامات کو بڑے زور دار انداز میں پیش کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمیں جو کہ الیکشن سے پہلے یہ باور کیے بیٹھے تھے کہ اب کی بار اقتدار کا ہما ان کے تعاقب میں ہے۔ اور نئے پا کستان کی منزل قریب آن پہنچی ہے کو ان نتائج سے شدید رنج پہنچا۔

خان صاحب نے چار و ناچار مسلم لیگ نواز کی حکومت کو تسلیم کر کے یہ شرط رکھ دی کہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کم از کم قومی اسمبلی کے چار حلقے کھول دیے جائیں۔
مسلم لیگ نواز کے نومنتخب وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خاں صاحب نے جواب آن غزل کے طور پہ چار کی بجائے چالیس حلقے کھولنے کا کہ کر سخاوت کا بھرپور مظاہرہ کر دیا جو بعد میں گلے میں ہڈی بن کر اٹک گیا۔ الیکشن 2013ء کے بعد کے ابتدائی دنوں کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو قومی سیاسی افق پر تقریبا سبھی پارٹیاں دھاندلی کا راگ الاپتے نظر آتی ہیں۔

لیکن دھاندلی کا یہ بیانیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خان صاحب کی طرف سے شدت اختیار کر تا گیا۔ اور بالأخر 2014ء کے دھرنے پر منتج ہوا۔ دھرنے کے ایام میں دشنام طرازی کا وہ مظاہرہ دیکھنے میں أیا جو کسی بھی طرح سے قابل تعریف نہیں گردانا جا سکتا۔ دھاندلی کو جواز بنا کر سیاستدانوں کی دل کھول کر کردار کشی کی گئی۔ الیکشن 2013ء کے بعد سبھی جماعتیں دھاندلی کا شور مچا رہی تھی لیکن خان صاحب نے اس مطالبے کو اس انداز سے اٹھایا کہ بجائے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنا ہم نوا بنانے کہ ان کو بھی دھاندلی کی لپیٹ میں لے لیا۔ بالآخر دوسری تمام پارٹیاں حکومتی کٹہرے میں کھڑی ہو گئی اور خان صاحب اس میدان کے اکیلے شہسوار رہ گئے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے ساتھ ساتھ ، پی پی پی کے آصف علی زرداری اور جمیعت علمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمن بھی عمران خان کی ہٹ لسٹ پر رہے۔ شاید عمران خان صاحب کی منشا بھی یہی تھی کہ عوام الناس کی نظر میں تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت کیا جا سکے اور پی ٹی أئی کو تبدیلی کی واحد علمبردار جماعت بنا کر پیش کیا جائے۔ ڈان لیکس اور پانامہ جیسے واقعات ، پاکستان تحریک انصاف کے لئیے غیبی امداد ثابت ہوئے جنہیں بنیاد بنا کر خان صاحب نے پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو چاروں شانے چت کر دیا۔ یہ پانامہ لیگ ہی ہے ، جو مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے نااہلی سے لے کر اڈیالہ جیل یاترا تک کا باعث بن چکی ہے ۔

الیکشن 2018ء سے پہلے ہی ہوا کے رخ چلنے والے بہت سے پنچھی مختلف سیاسی جماعتوں سے ہوکر پی ٹی أئی کو اپنا مسکن بنا چکے تھے یا الیکشن کے بعد بنانا چاہتے تھے۔ ہواؤں کا رخ واضح طور پہ بنی گالہ کی طرف تھا۔ اس لیے پاکستان مسلم لیگ ن پہلے ہی سے دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع ہو گئی تھی۔ عمران خان صاحب کو لاڈلا ہونے کا خطاب مل چکا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ جنہوں نے مل کر الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں تشکیل دی تھیں اور اپنی مرضی سے تمام عہدیدار تعینات کئے تھے۔ اب ان سے کچھ شاکی نظر آنا شروع ہو گئیں تھیں۔ پاکستانی اداروں کو خلائی مخلوق کے نام سے نشانے پر لے لیا گیا تھا۔ الیکشن سے پہلے یہ واضح تھا کہ سندھ پیپلز پارٹی کا ہی رہے گا۔اور پختونخواہ میں بھی پی ٹی أئی کا جادو چل جائے گا۔ مگر پنجاب اور وفاق مسلم لیگ ن اور پی ٹی أئی کا میدان جنگ ثابت ہو گا۔ الیکشن کے نتائج توقع کے عین مطابق تھے ۔ سوائے اس ہار کے، جو ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمن ، دیر سے سراج الحق، ڈیرہ غازی خان سے شہباز شریف، پشاور سے اسفند یارولی اور لیاری سے بلاول بھٹو کے حصے میں أئی۔ اس شکست نے مولانا فضل الرحمن کا دو دہائیوں سے زائد اقتدار کا نشہ اتار دیا تھا۔ پی ٹی أئی کا کراچی میں لگنے والا چھکا بھی بہت سوں کے اوساں خطا کر گیا۔ ہار کا صدمہ اتنا شدید تھا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے ان تما م قائدین کو جو کہ اپنی نشستیں کھو بیٹھے تھے کو پارلیمنٹ میں حلف نہ لینے پر قائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی، ادھر اس ساری صورتحال نے بنی گالہ کے مکینوں کو بھی پریشان کئے رکھا ۔شام کے چھے بجے تک بڑے احسن انداز میں چلنے والا پولنگ کا عمل اچانک متنازع ہونا شروع ہو گیا۔ ابتد ائی نتائج تحریک انصاف کے حق میں آ رہے تھے۔ جیسے جیسے نتائج واضح ہو تے گئے۔ سسٹم کی ناکامی کا ملبہ تحریک انصاف کی جیت کو متاثر کرتا گیا۔

اب ان سب پارٹیوں کے ہاتھ وہی ہتھیار آ چکا تھا جو کہ کبھی تحریک انصاف کا طرہ امتیاز تھا۔ بایئس سالہ جدوجہد کے بعد فتح تحریک انصاف کے دامن میں آ چکی تھی۔ لیکن عددی برتری اتنی بڑی نہیں کہ وہ جماعتیں جن کے خلاف یہ تحریک برپا کی گئی تھی کو شامل کئے بغیر اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔ عمران خان صاحب کا وہ خواب جو پچھلے بائیس سال سے ادھورا تھا اس کو شرمندہ تعبیر ہونا ہے۔ پاکستان بھر میں نوجوان طبقہ خوش بھی ہے اور جذبات سے بھرپور بھی۔ دنیا بھر سے اچھے اشارے مل رہے ہیں ۔ پاکستانی سرمایہ کار بقول تحریک انصاف بیرون ملک سے پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری لانا چاہتے ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا جو کہ عمران خان صاحب کو زیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ ان کی پہلی ہی تقریر سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکا۔ مختلف ممالک کے سفیر وزیر اعظم سے ملنے بنی گالہ کا چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن ساری زندگی دھاندلی کے خلاف جدوجہد کرنے والا وزیراعظم ، سسٹم کی جزوی ناکامی کے باعث دھاندلی کے الزامات کی زد میں آ چکا ہے۔ دھاندلی زدہ وزیر اعظم یا وزیر اعظم سیلیکٹ، یہ وہ ایشو ہے، جس کی ڈور ہمیشہ اپوزیشن کے ہاتھ میں رہے گی۔ وہ جب چاہے گی، جس طرع چاہے گی، تحریک انصاف کی حکومت کو تنگ کرتی رہے گی۔ کیونکہ یہ وہی راستہ ہے جس پہ چل کر تحریک انصاف ایوان اقتدار تک پہنچی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).