طلباء میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان


آج کل کی نوجوان نسل میں مایوسی، ذہنی تناؤ، خوف اور غیر یقینی کی صورت حال بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ حیرت ہے کہ جس نوجوان نسل سے ملک و قوم کا مستقبل وابستہ کیا جاتا ہے، وہی نوجوان نسل مایوسی اور غیر یقینی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جس نسل نے آگے چل کے ملک و قوم کی باگ دوڑ سنبھالنی ہو جب وہ خود ہی شکست خوردہ اور اپنی ہی منزل کا تعین کرنے سے بھی قاصر ہوتو اس نسل سے ملک و قوم کے روشن مستقبل کی امید رکھنا زیادتی ہو گی۔

قوموں کی ترقی و خوشحالی کا راز صرف اور صرف معیاری تعلیم میں ہی پنہاں ہے۔ جس قوم نے بھی علم و ہنر کو اپنا شعار بنایا وہ ترقی کی منزلیں طے کرتی اور دنیا میں اپنے کامیابی کے جھنڈے گاڑھتی چلی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے آج ہماری نوجوان نسل کے لئے حصول علم ایک ڈراؤنا خواب بن کے رہ گیا ہے۔ طلباء کے لئے تعلیم ایک بوجھ بن کے رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے طلباء میں مایوسی، ذہنی دباؤ، ناکامی کا خوف اور غیر یقینی پیدا ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں طلباء کی خودکشی اور شدت پسندی کے واقعات آئے روز رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا طالب علم سٹریس اور ڈپریشن کا شکار ہے۔

بد قسمتی سے ہمارا نظام تعلیم اور تعلیمی ادارے طلباء کو علم و ہنر کی نئی جہتوں سے متعارف کرانے کی بجائے کند ذہن اور نفسیاتی بیمار بنا رہے ہیں۔ والدین کی خواہشات اور غیر ضروری دباؤ نے باقی ماندہ کسر پوری کر دی ہے۔ امتحانات کے پریشر، مطلوبہ نتائج، اچھے نمبر لینے کی دوڑ اور والدین کی امیدوں پہ پورا اترنے کے چکر میں ذہنی دباؤ اور مایوسی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں طلباء کی، تیز فہمی، تجزیاتی اورتخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ طلباء اپنی تما م تر توانائیاں مایوسی، خوف اور ذہنی تناؤ سے لڑنے میں صرف کرتے رہتے ہیں اور کچھ تھک ہار کر اس قدر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ان کو اپنی جان لینے کے سوا کوئی اور رستہ دکھائی نہیں دیتا اور بالآخر وہ خودکشی جیسے بزدلانہ اور سنگین فعل کا ارتکاب کر لیتے ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم نوجوان نسل کو ذہنی طور پر مضبوطا اور توانا بنانے کی بجائے کمزور اور بزدل بنا رہا ہے۔

طلباء میں بڑھتی ہوئی خودکشی اور شدت پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو چاہیے کہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا سدباب کرے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن ملک کی تما م نجی و سرکاری یونیورسٹیوں میں اس سنگین مسئلے پر قابو پانے کے لئے ماہر نفسیات کی موجودگی یقینی بنائے تاکہ طلباء اپنے مسائل کے حل لئے مشاورت کر سکیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تما م نجی و سرکاری یونیورسٹیوں کو چاہیے طلباء کو ذہنی دباؤ، خوف، مایوسی اور غیر یقینی کی کشمکش سے نمٹنے کے لئے سٹریس مینجمنٹ ورکشاپز کرائی جائیں تاکہ طلباء سٹریس اور ڈپریشن جیسے چیلنجز سے لڑنا سیکھیں۔ اس سارے عمل میں والدین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ والدین کو چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر میں ایسا انوائرومنٹ مہیا کریں جس میں طلباء با آسانی اپنے مسائل و تحفظات بیان کر سکیں تاکہ ان کا بر وقت سدباب کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).