سوال


19 اگست 2018 عمران خان کا بحیثیت وزیراعظم قوم سے خطاب تاخیر سے شروع ہوا۔ ابتداء میں وہ کیمرے کےتوسط سے قوم سے مخاطب ہوےُ مگر بہت جلد کیمرہ اور ٹیلیوژن درمیان سے غائب ہو گئے۔ عمران خان کا دل، دلوں سے بات کرنے لگا۔ نہ غصہ نہ دھمکی نہ غیرضروری سیاسی باتیں، بلکہ یوں لگا جیسے وزیر ِاعظم عمران خان اور قوم کو آج پہلی بار دکھ سکھ بانٹنے کا موقع ملا ہو۔ عمران خان کے چہرے کے تاثرات، آواز، لہجا اور پیغام ایک حکمران کی بجائے ایک پُراعتماد، قائل کرنے والے اوراُمید دلانےوالے ہمدرد راہنما کے جیسے تھے۔
وزیر ِاعظم عمران خان نے پہلے ملک کو درپیش انتہائی دشوار حالات اور مشکلات کا الگ الگ تزکرہ کیا، جس کے دوران ایک مقام پر رک کر گھر کے شفیق بزرگ کی طرح ان الفاظ میں تسلی بھی دی، ” آپ نے گھبرانہ نہیں ہے” ۔ درپیش دُشواریاں بیان کرنے کے بعد اُنہوں نے حل بھی پیش کیے اور قوم سے کہا کہ قوم نے ان کی ٹیم بن کر مدد کرنی ہے اور یقین دلایا کے وہ قوم کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دینگے۔
بیواوٰں کے حقوق کی حفاظت کا ذکر تو کیا مگر مجموئی طورپرعورتوں پر تشدد اور انکے حقوق کے استحصال جیسا اہم نکتہ تقریر میں شامل نہیں تھا۔ پاکستان کی بڑھتی آبادی اور غربت کے مسائل سے نپٹنے کے لیئےنئے سرے سے فیملی پلیننگ کی مہم ہنگامی طور پرچلانے کا بھی کوئی ذکر نھیں آیا۔
عمران خان کی تقریر کا سب سے عمدہ حصہ وہ تھا جس میں انہوں نے قوم کے مدتوں سے محوِ نیند ضمیر کو جگانے کی کوشش کچھ ان الفاظ میں کی، ” جو قرض دیتا ہے وہ آپ کی آزادی بھی لیتا ہے۔اور کیا آپ کو شرم نہیں آئے گی جب آپ کا وزیر ِاعظم کسی سے پیسے مانگے گا؟ مجھے تو شرم آئے گی۔” لغت کے کسی کونے میں شکستہ حال پڑےلفظ ،”شرم” کا استعمال وہ بھی کسی پاکستانی حکمران کی زبان سے سن کرآنکھوں میں آنسو آ گئے۔اور 35 سال پرانا ماڈل ٹاون لاہوراور اس میں بسنے والے کئی بااصول اور باکردار شخصیات کے چہرے نظروں میں گھوم گئے۔
عمران خان کی تقریرمیں اعتماد، بہادری، بیداری،عزتِ نفس اور اُمید کا پیغام بھی صا ف سنائی دیا۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک رھنے والے پاکستانی بھی تقریر سےبظاہر بہت خوش ہوہے ۔
تقریر کے بعد سےایک ہی سوال کی تکرار ہر طرف ہے کہ کیا وزیرِاعظم عمران خان اپنے وعدوں اور دعوں کونبھا سکیں گے اگر ہاں تو کس حد تک؟ عمران خان کے ماضی کی روشنی میں دیکھیں تو امید ہے کہ بھرپور کوشش ضرور کریں گے۔ مگرسیاسی دماغ ہے نہ سیاسی مزاج ( یہی خوبی ہے) اوراس بنا پر غلطی کی گنجائش بھی ھے۔ اگر خوش قسمتی سے ٪30 کام بھی کر گےء تو بازی جیت جائیں گے۔
ایک اور نعرہ عمران خان کی تقریر میں بار بارسنائی دیا۔ نظامِ مصطفی کا نفاذ اور مدینہ ریاست تعمیر کرنے کا نعرہ۔ ماضی قریب میں انکا نجی زندگی کا فیصلہ اور یہ نعرہ سب سے زیادہ توجہ طلب ہے۔ کیا یہ انکے مزاج کی سیاسی گرومنگ ہے اور صرف قوم کی نفسیاتی ضرورت کا اعتماد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے یا سنجیدہ ارادہ؟ اگر یہ نعرہ ہے تو سمارٹ ہے لیکن اگر سنجیدہ ارادہ تو تاریخ انکا نام ضیاالاحق سے مختلف الفاظ میں یاد نہیں رکھ سکے گی ۔ لورجمہوریت کو سخت نقصان پہنچنےکا اندیشہ ہو گا۔ جسکا فائدہ مزہبی جماعتوں یا آمریت کو پہنچے گا۔
کیاعمران خان پاکستان اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہونگے؟ اس کا جواب تو وقت دیگا۔ مگرایک سوال اورہے کہ قومی کردارکے عزتِ نفس، خود اعتمادی اورحب الوطنی جیسے بُنیادی سُتونوں میں سالہا سال سےلگی کام چوری، سفارش، خوشامد، مطلب پرستی اور بےحسی کی دیمک نے مرمت کی گنجائش چھوڑی بھی ہے یا کھوکھلا کر دیا ہے، اس کا جواب قوم کے ہر شخص کو آئینے میں تلاش کرنا ہوگا

عروج عروج
Latest posts by عروج عروج (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).