!اُف کیا بچی ہے


پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک شو میں سوال پوچھا گیا کہ ’’لڑکا انجان لڑکی کو دیکھ کر کیا کہتا ہے؟‘‘ـــــ اس کے جواب کے طور پر جو مختلف آپشنز دیے گئے تھے اس میں سے ایک تھا ’’ اف کیا بچی ہے!‘‘۔ بچی کی ’’اصطلاح‘‘ کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھیورائز کرنا پڑے گا۔ بچی کے جو سماجی معانی مستعمل ہیں اس میں سب سے پہلا اور معروف معنی جنسِ مخالف کا چھوٹی عمر کا فرد یعنی چھوٹی عمر کی لڑکی ہونا ہے۔ کسی اجنبی لڑکی کو دیکھ کر اسے استعجابی انداز میں یہ کہنا کہ ’’اف کیا بچی ہے‘‘ ہرگز اس کی عمر کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ خاص طور پر جب لفظ ’’ اُف‘‘ کا استعمال کیا جا رہا ہو تو وہاں عمر کے تفاوت کا اظہار طے نہیں ہو پاتا۔ ’’اُف ‘‘ گرامر کی رُو سے حروفِ فجائیہ سے تعلق رکھتا ہے جو داد و تحسین یا انبساط کے لیے فوری تاثر کے طور پر منہ سے بطور صوتی معنوی اکائی کے متشکل ہوتے ہیں ۔کسی چھوٹی عمر کی ’’بچی‘‘ یعنی لڑکی کو دیکھ کر جو فوری تاثر ذہن سے زبان میں آتا ہے وہ کچھ یوں ہوگا ’’ ماشااﷲ کیا پیاری گڑیا ہے یا ارے کتنی پیاری بچی ہے ماشا اﷲ!۔ لہٰذا طے ہوا کہ کسی انجان لڑکی ( چھوٹی بچی ) کو دیکھ کر اُف کیا بچی ہے کا اظہاریہ ممکن نہ ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ یہاں ’’بچی‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اگر بچی کو بطور سلینگ سمجھا جائے تو اس کا معنی یہ ہے کہ سلینگ زبان کا غیر رسمی اور مغلظانہ استعمال ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ ’’بچی‘‘ کا استعمال یہاں بطور سلینگ ہوا ہے، یا مارکسی تانیثیت کی رُو سے بطور ایک قابلِ فروخت اور قابل ِ استعمال جنس (پراڈکٹ) کے۔ انگریزی میں اس لفظ کے قریب قریب استعما ل ہونے والے دو الفاظ ہیں ایک ہےBabe اور دوسرا Chick ۔ اول الذکر لفظ جنسی نہیں بلکہ تعلق کے قرب کو واضح کرتا ہے یہ بالکل ویسا ہی لفظ ہے جو ہمارے ہاں ایک ٹی وی ڈرامے میں استعمال ہوتا ہے اور اب تو بچہ بچہ اس کی معنی آفرینی سے آشنا ہوئے بغیر یہ لفظ بولتا دکھائی دیتا ہے اور وہ لفظ ہے ’’جانُو‘‘۔ ایسے ہی انگریزی فلموں کی نسبت بھارتی فلموں میں Baby کا لفظ بھی ہر دو جنسی اکائیوں کے لیے مستعمل ہے ۔ دوسرا لفظ جس کا ذکر مندرجہ بالا متن میں کیا گیا ہے وہ ہے’’Chick‘‘۔ یہ ایک خالصتاً جنسی لفظ ہے ۔ گویا جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کو دیکھتا ہے تو جو لفظ (بہت سے ایسے الفاظ جو خالصتاً سلینگز ہیں اور یہاں ان کا ذکر مناسب نہیں) بولے یا کہے جاتے ہیں عمومی طور پر جنسِ مخالف کو بطورِ ممکنہ جنسی ’’شے‘‘ کے متشکل کرتے ہیں۔

اس جنسی ’شے‘ کے متشکل کرنے کے پیچھے بنیادی بیانیہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے۔ یعنی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مخالف جنس ( خاتون ) کو دیکھ کر مرد کے ذہن میں جو تصورِ شے اختراع ہوتا ہے وہ خالصتاً جنسی بھی نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاں جو تصورِ خاتون یا تصورِ نسائیت ہے وہ ایک سرمایہ دارانہ اختراع (ماحصل) ہے۔ یہاں سرمایہ دارانہ اختراع یا ماحصل سے مراد Capitalist construct ہے۔ جب کوئی لڑکا کسی ایسی لڑکی کو دیکھے گا جو اس کے اس تصورِ نسائیت (Feminie persona) کے مطابق یا قریب قریب ہوگی تو وہ ایسا اظہاریہ کرے گا۔ وہ کبھی بھی اس لڑکی کو دیکھ کر یہ نہیں کہے گا ’’اُف کیا بچی ہے‘‘ جو محض خوبصورت ہو۔ بلکہ ’’اُف‘‘ اور ’’ بچی‘‘ کے لسانی اظہاریے کے لیے اس کا تصورِ زبان اس کے تصورِ نسائیت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ حروفِ فجائیہ سوچے سمجھے لسانی اظہاریے نہیں ہوتے بلکہ یہ فوری تاثرات ہوتے ہیں ۔ جیسے کسی کے پاؤں پر دوسرے کا پاؤں پڑ جائے تو وہ جو فوری تاثر( جس کا اظہار یہاں ممکن نہیں) دیتا ہے وہ ’’اُف کیا بچی ہے‘‘ کے فوری تاثراتی اظہار سے معنوی سطح پر مختلف نہ ہوگا۔

مارکسی تانیثیت پسندوں کے نزدیک مرد کا یہ تصورِ نسائیت بھی سرمایہ دارانہ نظام کا اختراع کردہ ہے۔ جو کہ بالکل درست ہے ۔خواتین کے جو images ہمیں بصری بیانیوں یا دیگر متنی بیانیوں میں ملتے ہیں وہ ’’ اختراع یا ماحصل ‘‘ ہوتے ہیں جو انسانی حقیقی زندگی سے بہت حد تک مختلف ہوتے ہیں ۔ جب مردوں کے نزدیک جنسی اداکاؤں مارکہ امیج متشکل ہوچکا ہوتو حقیقی زندگی کا تصورِ نسائیت ان کے لیے قابل ِ قبول نہیں ہوتا ۔ اور فرض کیجیے کہ ان کے لیے قابلِ قبول ہو بھی جائے تووہ اسے حقیقت سے دُور تصور کرتے ہیں ۔

مارکسی تانیثیت سے اس ضمن میں دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں ایک یہ کہ مردوں کے ہاں تصورِ نسائیت اپنے مرکز سے دُور ہے یعنی اصل نسائی امیجز سے مختلف، اور دوسری چیز یہ کہ مردوں کے تصورِ نسائیت سرمایہ دارانہ نظام کا اختراع کردہ ہے۔

اب اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو دیکھ کر یہ کہے کہ ’’ اُف کیا بچی ہے یار!‘‘ تو اس کا معنی یہ ہُوا کے وہ قدر کی بجائے قیمت کو سبسکرائب کررہا ہے۔ وگرنہ وہ سڑک سے گزرنے والی ہر لڑکی کو دیکھ کر ایسے ہی اظہار کرتا ، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ ہر لڑکی کو دیکھ کر اسے قدر کی معنوی اکائی سے منسوب کرے۔ لہٰذا یہ سوال اپنے ہی Mytheme سے متصادم ہے۔ جیسے کہ جے اے کڈن نے لغت برائے ادبی اصطلاحات میں ردِ تشکیلیت کی یوں وضاحت کی تھی ’’متن ظاہر میں جامد اور یک معنوی تفہیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا معنی اس سے یک سر مختلف ہوسکتا ہے ۔ اس کا مطالعہ ایسے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس میں معنوی تکثیریت، یا بہت سے تغیرات، تضادات اور اختلافی مضامین ہوسکتے ہیں جو اس تنقیدی تصور سے دیکھے جا سکتے ہیں اس لیے یہ کہنا بہتر نہیں ہوسکتا کہ متن خود کو بھی دغا دے سکتا ہے‘‘۔

ٹی وی پر نمودار ہونے والے لسانی اظہاریے کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ مجھ سمیت بیشتر ناظرین کے مطابق یہ لفظ بطور سلینگ یا Abusive اظہاریے کے استعمال ہوا لیکن ایسا نہیں ہے۔یہ لفظ اسی جنس (شے) کو سگنیفائی کر رہا ہے جو اس کی معنویت پر پورا اتر رہی ہے۔

اب رہا دوسرا سوال کہ ایسے لفظ کو ٹی وی پر بولنا چاہیے کہ نہیں ۔ میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ اسے نہیں بولنا چاہیے مع بیسیوں اور الفاظ جو مغائرت ، تحقیریت یا فاصلے کو متشکل کرتے ہیں وہ بھی نہیں بولنے چاہئیں ۔ چونکہ ’’بچی‘‘ ایک جنسی لسانی اظہاریے کے علاوہ ایک پولیٹیکل اصطلاح بھی ہے جو جنسِ مخالف کی غیریت کو مستحکم کرتی ہے یا Belittling کرتی ہیں لہٰذا اسے مارکسی تانیثت پسند اور عمومی تایثیت پسندوں کی طرف سے رد کرنا چاہیے۔

جب آپ کسی کو Belittle کرتے ہیں تو اسے سماجی خود مختاری میں غیر اہم گردانتے ہیں جیسے کہ ہینرک ابسن کے ڈرامے A Doll’s House میں Nora کو اس کا شوہر Skylark اور squirrel کہہ کر حقیر ثابت کرتا ہے حالانکہ Torvald Helmer کی نسبت نورا زیادہ خود مختار ہوتی ہے۔ تاہم ایک اہم بات کہ Taboo کے خلاف جانا روشن خیالی نہیں ہے ، ہر سماج میں ایسی روایات موجود ہوتی ہیں جن کے خلاف نہیں جایا جاتا۔ لیکن ان روایات کی تفہیم کے سلسلے میں فکری تضاد (Positionality conflict) موجود نہیں ہونا چاہیے۔

حیرت کی بات ہے کہ بازاروں میں ریڑھیوں پر خواتین کے زیر جامے اور دیگر لوازمات سر ِ عام بک رہے ہوتے ہیں لیکن اس کا ٹی وی پراشتہار نہیں چلایا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹی وی پر آپ کو یہ اشتہار دیکھنے پر مجبور کیا جائے گا اور بازار میں آپ کو مجبور نہیں کیا جاتا لیکن درحقیقت بازار میں بھی وہ ادارہ جاتی جبر ہے جو ٹی وی پر ہے یعنی سماج میں بازار میں بکنے والے ان لوازمات کی موجودگی کو تسلیم کرلیا تو کیا اب وہ درست ہوگیا؟ یہی فکری تضاد مرکز گریزی کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا بطور ایک روایتی سماج کے ہمیں ہر اس اظہاریے پر یا تو پابندی لگا دینی چاہیے جو سماج سے متصادم ہویا پھر ہر اس آزادی کو تسلیم کرلینا چاہیے جو دیگر آزادیوں کے عین مساوی یا مترادف ہے۔ یہ درمیان والی راہ سماج کو مزید لخت لخت کررہی ہے۔اور اصطلاحات کی درست تفہیم بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).