بیٹی کی تیرہویں سالگرہ پہ اس کے نام خط


آئلہ زینب

یہ تمہاری تیرہویں سالگرہ ہے۔ رائٹر کی بیٹی ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ سالڈ گفٹ کم ملتے ہیں بول بچن زیادہ ہوتا ہے، برداشت کرو۔ اصل میں نصیحتیں کرنے کی چٌل ہوتی ہی بڑی عجیب و غریب ہے۔ جو کچھ نہیں کر سکا ہوتا وہ نصیحت ضرور کرتا ہے۔ ویسے بھی جو دیسی باپ سالگرہ پہ زبردستی اولاد کو اچھی تربیت دینے کے لیے لیکچر نہ پلائے اسے آپ کیسے ایک اچھا انسان کہہ سکتے ہیں؟ علامہ اقبال، ٹالسٹائی، سکاٹ فٹز جیرلڈ اور پتہ نہیں کون کون شاعر ادیب تھا جو اس خواہش پہ قابو نہ پا سکا تو بیٹی، تمہارا باپ تو ایک چھوٹا موٹا سا لکھاری ہے اور پھر ایک دیسی پیرنٹ بھی ہے۔

جب میں تمہاری عمر کا تھا تو ابو کبھی کبھار یہ کہتے تھے کہ اس کی شکل دیکھ کے مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ میں ویسے کوئی خاص چھمنوا نہیں تھا لیکن اس بات پہ اوور سینسٹو ہو جاتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ یار کیسے ایک باپ اپنی اولاد کو دیکھ کے یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے تمہاری شکل دیکھ کے غصہ آ جاتا ہے؟ میں باقاعدہ اپ سیٹ رہتا تھا لیکن تھا میں بھی پوری فلم، بجائے کچھ ایسا کرنے کے جو انہیں پسند آئے، میں اس آفاقی غم میں اور الٹی سیدھی حرکتیں کرتا تھا۔ ظاہری بات ہے انہیں اور زیادہ غصہ آتا ہو گا۔ اب پوری ایمانداری سے بتا رہا ہوں یار کہ میں اس دور کی اپنی تصویریں دیکھتا ہوں تو قسم بہ خدا مجھے بھی غصہ آتا ہے! کس قدر الو کا پٹھا لگتا تھا میں آئلہ زینب؟ یو کانٹ امیجن! اپنی عمر کے ساتھ چلنا مجھے کبھی آیا نہیں اور بڑھتی عمر والوں کے فیشن مجھ پر آف کورس اچھے نہیں لگتے تھے، لیکن یہ بات اب رئلائز ہوئی ہے۔ لفنگوں جیسے لمبے بال، بیچ کی مانگ، پھٹی ہوئی اور انتہائی بیل باٹم پائنچوں والی جینز، عجیب بدتمیز قسم کی لمبی بیگی شرٹ، پیروں سے بڑے جوگرز، گلے میں چین، کلائیوں کے جتنے کف لنکس، لاحول ولا قوة ۔۔۔ جمال یٰسین کا بیٹا ایسا ٹچا تھا؟ ہاں بھئی تھا، اب کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن تم داد نہیں دو گی جمال یٰسین کو کہ انہوں نے برا منانے کے باوجود سب کچھ کرنے دیا؟ امی سمجھاتی تھیں کہ بیٹا شریف اولاد کے لچھن یہ نہیں ہوتے تو شاید ان کو اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ اولاد سالی ہے ایسے ہی لچھنوں والی، تو بس دونوں ماں باپ صبر کیا کرتے اور ابو کا احتجاج (جو اس وقت مجھے نفرت اور غصہ لگتا تھا) کٌل ملا کر یہی ہوتا تھا کہ “تمہاری شکل دیکھ کے غصہ آتا ہے۔”

پھر ان دنوں ایک مسئلہ اور ہو گیا۔ میں نیو نائنتھ میں چلا گیا۔ یہ ہمارے سکول کی وہ کلاس ہوتی تھی جو اصل میں آٹھویں تھی لیکن میٹرک کی تیاری کے چکر میں بجائے ایٹتھ کی کتابیں پڑھانے کے، وہ لوگ ہمیں ڈائریکٹ میٹرک والی بکس پڑھانی شروع کر دیتے تھے۔ اب سوچو تیرہ چودہ سال کا بچہ، سوئیٹ ٹینز کا نشہ، اس چیز کا فخر کہ وہ “میٹرک” میں ہے، ہلکی ہلکی سے داڑھی مونچھیں، ابو کا ویسپا، سارے محلے کے دوست یار اپنے جیسے فل ملنگی، ایسا بچہ کیا پڑھائی کرے گا؟ تو الحمدللہ بالکل نہیں کی۔ پتہ ہے کیا ہوا؟ پہلے سکول والوں نے انگلش میڈیم سے مجھے اردو میڈیم کیا پھر جب میٹرک کے داخلے بھیجے گئے تو باوجود سکول میں پڑھنے کے، انہوں نے تمہارے بابا کا داخلہ پرائیوٹ بھیجا۔ پتہ ہے کس لیے؟ تاکہ اگر فیل شیل ہو جائے تو سکول کا رزلٹ خراب نہ ہو۔ بابا سر ندیم، بھائی جان عاصم اور سر آفتاب کی وجہ سے فرسٹ ڈویژن لے گیا لیکن بیٹی، ضروری نہیں سب کو اچھے ٹیچر مل جائیں۔ پھر آگے بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ ایف ایس سی میں داخلہ لیا اور ایف اے کیا، بی بی اے میں داخل ہوا اور دو سال بعد پھر بی اے کر لیا۔ ایم اے کیا، ایم بی اے تمہاری ماں نے کروایا لیکن پھر وہی بات ۔۔۔ زندگی سب کو موقعے نہیں دیتی یار!

تو اب تمہارا بابا ڈاکٹر، انجینئر، فوجی یا پائلٹ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ایک اچھا لڑکا ان چاروں میں سے ایک ہوتا ہے۔ بابا چونکہ شروع سے تھوڑا فری سٹائل تھا اس لیے اب تک ویسا ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بابا نے اتنا لمبا روٹ کیوں لیا ہے؟ ماشاللہ سیانی بیانی بیٹی ہے میری شہزادی، سب سمجھتی ہے، کہ نہیں؟

کچھ عرصہ پہلے وسعت اللہ خان صاحب نے ایک کالم لکھا تھا بیٹا، اس میں انہوں نے سوشل میڈیا سے ٹھیک ٹھاک بے زاری دکھائی کہ بچے ایسے ہو گئے ہیں ویسے ہو گئے ہیں، ماں باپ کے پاس نہیں بیٹھتے اور پتہ نہیں کیا کیا لکھا تھا۔ میں اس وقت یہ سمجھا کہ وسعت اللہ بھی اب بوڑھے ہو گئے، ایویں سوشل میڈیا کے خلاف ہو رہے ہیں، بھئی نئے بچے ہیں نئی مصروفیات ہیں، ہمیں کیا حق ہے کہ ہم انہیں روکیں؟ لیکن نہیں یار، تم اب پری او لیول میں آئی ہو تو استاد تمہارا بابا بھی بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسے لگنے لگا ہے کہ انسٹا گرام تمہیں پڑھنے نہیں دیتا اور فیس بک تمہیں ہمارے پاس نہیں بیٹھنے دیتا۔ آئے ایگری! اس سے زیادہ جذباتی بلیک میلنگ نہیں کی جا سکتی مگر اور کچھ ہو بھی تو نہیں سکتا آئلہ ۔۔۔ “اچھا فیوچر” اور اچھی نوکری اچھی پڑھائی کے بغیر نہیں مل سکتی اچھی بچی! تم ڈاکٹر، انجینئیر، پائلٹ یا فوجی نہ بنو، جو مرضی بن جاؤ یار لیکن پڑھائی تو سالڈ منگتا ہے نا بابا؟ اس کے بغیر کچھ بھی پاسیبل نہیں ہے۔ پھر اب تو ایڈکسل والوں کا کرائیٹیریا بھی سخت ہو گیا ہے نا؟ وہ کیا تھا کہ 120 میں سے 90 والوں کو بھی اے گریڈ نہیں ملتا؟ لعنت ہے یار ویسے لیکن مجبوری بھی ہے۔ پڑھنا ہے تو برداشت تو کرنا پڑے گا بھئی۔ تمہارا ٹائم ہے ہی اتنا سخت، ہر چیز میں مقابلہ ہے، ہر چیز کمرشل ہے اور ہر چیز مصنوعی ہے ۔۔۔ ابے ایون وہ تم لوگوں کا پاؤٹ تک آرٹیفیشل ہے یار، لیکن چلے گا، سب چلے گا بلکہ دوڑے گا اگر پڑھائی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔

ویسے آئلہ زینب ۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میں واقعی ایک بدمزاج بوڑھا ہو چکا ہوں جو بیٹی کو اس کی تیرہویں سالگرہ پہ اتنا لمبا بور قسم کا لیٹر لکھ رہا ہے۔ تم نیچے کمرے میں آئی پیڈ پہ چپکی ہوئی ہو تو آخر میں وہیں آ کے تم سے یہ سب کیوں نہیں کہہ دیتا؟ شاید اس لیے کہ بعض اوقات آپ بولتے ہوئے اتنے کمپوزڈ نہیں ہوتے جتنے لکھتے وقت ہو جاتے ہیں۔ میں تو ویسے بھی پتہ نہیں کیا الٹا سیدھا بولتا رہتا ہوں، لکھے ہوئے لفظ شاید تمہاری کھوپڑی میں کہیں جمے رہ جائیں، نہ بھی رہیں تو کوئی غم نہیں ۔۔۔ وقت سارے کام خود بہ خود کرا دیتا ہے، دیکھ لینا۔

اور ہاں، آخر میں وہی سو سال پرانا راگ دوبارہ سن لو۔ تمہاری اماں بھی تمہارے چکر میں کھجل ہوتی ہیں کہ تم کسی طرح ڈھنگ سے پڑھ جاؤ، یہ بات ہم دونوں دس ہزار مرتبہ تم سے کہہ چکے ہیں لیکن اسے لکھنے کا الگ ہی مزا ہے ۔۔۔ ایک خبیث والی سمائیلی ۔۔۔ تو میری بچی، ہمت کرو ۔۔۔ تمہیں بس دس سال دل لگا کے پڑھنا ہے اور اس کے بعد موج ہی موج پھر بھی نہیں ہو گی۔ زندگی ہر گزرتے سال کے ساتھ مشکل ہوتی ہے، نئے مسئلے ہوتے ہیں، نئے پھڈے ہوتے ہیں، یہ پڑھائی بھی سمجھو انہیں میں سے ایک ہے۔ پڑھنا مگر ہے۔

باقی سب خیریت ہے۔ بائے نیچر تم اچھی اور مضبوط انسان نکلی ہو، یہ میرے اور تمہاری ماں کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ گانے، میک اپ، فوٹوگرافی، ایڈیٹنگ یہ سب تمہارے پلس پوائنٹس ہیں لیکن ان سے روزی کمانا یا ان کے بل پہ زندگی کرنا آسان نہیں ہے یار ۔۔۔ آرٹ سب کچھ ہے لیکن پڑھائی کے برابر نہیں ہے بابو ۔۔۔ تو بس!

یاد رکھو، بابا اگر تمہیں ڈانٹتا ہے تو اس میں تمہاری بھلائی ۔۔۔ نہ ۔۔۔ ہرگز نہیں ہوتی، وہ اپنی فرسٹریشن نکالتا ہے کہ یار میں اپنی بات آخر بیٹی کو کیسے سمجھاؤں؟ اس لیے برا مت مانا کرو، میری عمر میں آ کے یقیناً تم مجھ سے زیادہ پرابلمیٹک ہو گی اپنے بچوں کے لیے (اور یہ مجھے یقین ہے ۔۔۔ وہی خبیث والی سمائیلی)۔ ٹائم پاس کرو، ہنسی خوشی رہو، ماں کا بہت زیادہ خیال رکھو وہ تمہارے بارے میں بہت حساس ہے اور یہ تمہیں پتہ ہے!

چل بھئی، کافی ہو گیا۔ ہاں تو ہیپی برتھ ڈے ٹو یو مائی لولی! جگ جگ جیو، دودھوں نہاؤ، موج کرو، ہمیشہ خوش رہو اور آس پاس والے انسانوں کو خوش رکھو۔

کل پھر ہیپی برتھ ڈے پہ ایمپوریم جانا ہے یا سینیما میں فلم دیکھنی ہے؟

تمہارا بابی

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain